نیّت کے بارے میں پانچ اَہم مَدَنی پھول
{۱} بِغیر اچّھی نیّت کے کسی بھی نیک کام کا ثواب نہیں ملتا{۲}جتنی اچّھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ{۳} نیّت دل کے ارادے کو کہتے ہیں ، دل میں نیّت ہوتے ہوئے زبان سے بھی دوہرا لینا زیادہ اچّھا ہے، دل میں نیّت موجود نہ ہو نے کی صورت میں صرْف زبان سے نیّت کے الفاظ ادا کر لینے سے نیّت نہیں ہو گی{۴}کسی بھی عملِ خیر میں اچّھی نیّت کا مطلب یہ ہے کہ جو عمل کیا جا رہا ہے دل اُس کی طرف مُتَوجِّہ ہو اور وہ عمل رِضائے الٰہی عَزَّ وَجَلَّ کیلئے کیا جا رہا ہو، اِس نیّت سے عبادات کو ایک دوسرے سے الگ کرنایاعبادت اور عادت میں فرق کرنا مقصود ہوتا ہے۔ یاد رہے!صِرْف زَبانی کلام یاسوچ یا بے توجّہی سے ارادہ کرنا ان سب سے نیّت کوسوں دور ہے کیونکہ نیّت اس بات کا نا م ہے کہ دل اس کام کو کرنے کیلئے بالکل تیّار ہویعنی عزمِ مُصَمَّماور پکّاارادہ ہو {۵}جو اچّھی نیّتوں کا عادی نہیں اُسے شُروع میں بہ تَکلُّف اس کی عادت بنانی پڑے گی ،مطلوبہ نیک کام شروع کرنے سے قبل کچھ رک کر موقع کی مناسَبَت سے سر جُھکائے،آنکھیں بند کئے ذِہن کو مختلف خیالات سے خالی کر کے نیتوں کیلئے یَکسُو ہوجانا مُفید ہے،اِدھر اُدھر نظریں گُھماتے ، بدن سہلاتے کُھجاتے،کوئی چیز رکھتے اٹھاتے یا جلد بازی کے ساتھ نیّتیں کرنا چاہیں گے تو شاید نہیں ہو پائیں گی۔نیّتوں کی عادت بنانے کیلئے اِن کی اَھَمِّیَّتپر نظر رکھتے ہوئے آپ کو سنجیدَگی کے ساتھ پہلے اپناذِہن بنانا پڑے گا۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد