کر لیتا اور جب دوبارہ سفر کا وَقْت ہوتا تو اونٹ پر کجاوہ رکھ کر اسے میرے پاس چھوڑ کر پھر دُور ہٹ جاتا،میرے سوار ہونے کے بعد خاموشی سے آکر نکیل پکڑتا اور سُوئے مدینہ چل پڑتا۔ یوں دَورانِ سفر بھی میں نقاب میں رہی اور پردے کے اِہتِمام میں مجھے کوئی دُشواری پیش نہ آئی، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس شخص کو جزائے خیر عطا فرمائے اس نے بہت اچھے کردار کا مُظاہَرہ کیا۔
آخر جب میں مدینہ پہنچی تو سب سے پہلے اُمُّ المومنین حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ سَلَمَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے کاشانَۂ اَقْدَس پر حاضِر ہوئی۔ میں اس وَقْت بھی نِقاب میں تھی جس کی وجہ سے سیّدہ اُمِّ سَلَمَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے مجھے نہ پہچانا، لہٰذا میں نے چہرے سے نِقاب ہٹا کر انہیں اپنا تعارُف کروایا اور جب بتایا کہ میں نے تنہا ہجرت کی ہے تو وہ دنگ رہ گئیں اور حیرت سے پوچھنے لگیں کہ کیا واقعی!تم نے تنہا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا کی خاطِر ہجرت کی ہے؟میں نے اِقرار کیا،ابھی ہم باتیں ہی کر رہی تھیں کہ رسولِ اَکرم،شاہ ِبنی آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بھی تشریف لے آئے اور تمام صورت ِحال جان کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اھلاً و سہلاً کے دل آویز اَلفاظ سے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے اس طرح اِسلام کی خاطِر ہجرت کرنے کو سراہا۔ (۱)
(۱) ………صفةالصفوة ،ذكر المصطفيات من طبقات الصحابيات،ام کلثوم بنت عقبه بن ابی معیط، المجلد الاول، ٢/ ٣٩