نَمُونہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر آپ میں سے کوئی یہ سمجھے کہ یہ اِنتہائی مشکل کام ہے اور صِرف صحابیات کے ہی بس کا تھا، اب کسی کے لیے اس طرح کے پردے کا اِہتِمام کرنا ممکن نہیں تو جان لیجئے کہ حقیقت میں ایسا نہیں، کیونکہ تاریخ میں ایسی روشن ضمیر و باپردہ صالحات کا تذکرہ بھی ملتا ہے کہ جن کے دامَن کے دھاگے پر بھی کسی غیر محرم کی نِگاہ نہیں پڑی۔ چنانچہ،
شیخ عَبْدُالحق مُحدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی اَخبارُ الاَخیار میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ خُشک سالی ہوئی، لوگوں نے بَہُت دُعائیں کیں مگر بارِش نہ ہوئی، تو شیخ نظامُ الدِّین ابو المؤیّد رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنی والِدہ ماجِدہ کے پاکیزہ دامَن کا ایک دھاگا اپنے ہاتھ میں لیا اور بارگاہِ ربّ العزّت میں یوں عرض کی:اے اللہ! یہ اُس خاتون کے دامَن کا دھاگا ہے جس پر کبھی کسی نامحرم کی نظر نہ پڑی،مولا اِس کے طُفیل بارانِ رحمت (یعنی رحمت کی بارش) نازِل فرما۔مُحدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں کہ ابھی شیخ نظامُ الدِّین عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالمَتِیننے یہ جُملہ کہا ہی تھا کہ چھما چھم بارِش برسنے لگی۔(۱)
برستا نہیں دیکھ کر اَبْرِ رَحْمت
بدوں پر بھی برسا دے برسانے والے (۲)
(۱) ……… اخبار الاخیار ذکر بعضے از نسائے صالحات،بی بی سارہ،ص۲۹۴
(۲)………حدائق بخشش، ص١٥٨