رہنے کا حکْم فرمایا ہے۔ لہٰذا خدا کی قسم! اب میں پَیامِ اَجَل(موت)آنے تک گھر سے باہَر نہ نکلوں گی۔ راوی فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا گھر کے دروازے سے باہَر نہ نکلیں یہاں تک کہ آپ کا جنازہ ہی گھر سے نکالا گیا۔ (۱)
جنازے پر کسی غیر کی نظر نہ پڑے
اسی طرح مروی ہے کہ حضرت سَیِّدَتُنا فاطِمۃ الزّہرا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے موت کے وَقْت یہ وصِیَّت فرمائی کہ بعدِ اِنتقال مجھے رات کے وَقْت دفن کرنا تاکہ میرے جنازے پر کسی غیر کی نظر نہ پڑے۔(۲)
چُو زَہرا باش از مخلوق رُو پوش
کہ دَر آغوش شبیر ے بَہ بینی
یعنی حضرت سَیِّدَتُنا فاطِمۃ الزّہرا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی طرح پرہیز گار و پردہ دار بنو تاکہ اپنی گود میں حضرتِ سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ جیسی اولاد دیکھو۔
کیا پردے کے پہلے درجہ پر عمل صحابیات ہی کا کام تھا؟
پیاری پیاری اِسلامی بہنو!پہلے درجہ کے پردے و حِجاب پر عَمَل کرنے والی صحابیات کی سیرتِ طیبہ کا یہ روشن پہلو آج کے دَور کی اِسلامی بہنوں کے لیے عَمَلی
(۱) ……… در منثور،پ ٢٢، الاحزاب، تحت الآية:٣٣، ٦/٥٩٩
(۲)………مدارج النبوت، قسم پنجم، باب اوّل، ذکر وفات فاطمہ زہرا، الجزء الثانی، ص۴۶۱