فَرْطُ الْحُبِّ۔ یعنی مَحبَّت میں حَد سے تجاوُز کرنا عِشْق ہے۔1 اسی طرح اعلیٰ حضرت، اِمامِ اہلسنّت،مُجَدّدِ دىن و ملّت، پَروانۂ شَمْعِ رِسالَت مولانا شاہ اِمام احمد رَضا خانعَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن عِشْق کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مَحبَّت بمعنی لُغَوِی جب پختہ اور مُؤَکَّدہ(یعنی بَہُت زیادہ پکّی )ہو جائے تو اسی کو عِشْق کا نام دیا جاتا ہے پھر جس کی اللہ تعالٰی سے پختہ مَحبَّت ہو جائے اور اس پر پختگیِ مَحبَّت کے آثار (اس طرح) ظاہِر ہو جائیں کہ وہ ہمہ اَوقات اللہ تعالٰی کے ذِکْرو فِکْر اور اس کی اِطَاعَت میں مَصروف رہے تو پھر کوئی مانِع(یعنی رُکاوَٹ)نہیں کہ اس کی مَحبَّت کو عِشْق کہا جائے ، کیونکہ مَحبَّت ہی کا دوسرا نام عِشْق ہے۔2
محبتِ باری و محبوبِ باری سے مراد
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!حضرت سَیِّدُنا اِمام احمد بن محمد قَسْطَلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی فرماتے ہیں:کسی دانا شخص کا قول ہے کہ ایک مَیان میں دو۲تلواریں نہیں رہ سکتیں، اسی طرح ایک دِل میں دو۲مَحبَّتوں کی گنجائش نہیں۔ لہٰذا کسی کا اپنے مَحْبُوب کی طرف مُتَوجّہ ہونا اس بات کو لازِم کر دیتا ہے کہ وہ باقی ہر شے سے منہ موڑ لے، کیونکہ مَحبَّت میں مُنَافقت دُرُسْت نہیں، مگر (مَحبَّتِ باری تعالیٰ کے ساتھ ساتھ) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مَحبَّت کو باقی ہر شے کی
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
……… لسان العرب، ۵/ ۲۶۳۵
2……… فتاویٰ رضویہ ، ۲۱/۱۱۵ملتقطاً