جِدَھر بڑھتے ہوئے پاتی تھی وہ مَحْبُوبِ باری کو پہنچتی تھی وہیں اُمِّ عمّارہ جَاں نِثاری کو
سَر و گردن پہ اس بی بی نے تیرہ زَخْم کھائے تھے مگر میدان سے اس کے قَدَم ہٹنے نہ پائے تھے
یہ اُٹھی تھی نَمازِ صُبْح کو تَاروں کے سائے میں نَمازِ ظُہر تک قائم تھی تلواروں کے سائے میں
یہی مائیں ہیں جن کی گود میں اِسلام پلتا ہے
اسی غیرت سے اِنساں نُور کے سانچے میں ڈھلتاہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
عشق و مَحبَّت کیا ہے؟
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!آخِر وہ کون سا جذبہ تھا جس کے تحت حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ عمّارہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا پروانوں کی طرح شَمْعِ رِسَالَت پر اپنی جان نِثار کرنے کے لیے تیّار ہو گئیں۔ یہ کوئی حیرانی اور اچنبھے کی بات نہیں، کیونکہ یہی وہ جذبہ تھا جس نے حضرت سَیِّدُنا بلال حبشی رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو صحرا کی تپتی ریت پر سینے پر پڑی بھاری چٹان تلے دبے ہوئے بھی الاحد الاحد کی صَدائے دِل نواز بُلَند کرنے کا حَوصِلہ دیا اور یہی وہ جذبہ تھا جسے حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ عمّار بن یاسِر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر پروان چڑھایا ۔
پیاری پیاری اِسْلَامی بہنو!اس جذبے کو ہم مَحبَّت کہتے ہیں۔ مَحبَّت آخِر کیا چیز ہے کہ بندہ اپنے مَحْبُوب پر سب کچھ وَار دینے کے لیے تیّار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا یہ جاننا
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
………شاہنامہ اسلام مکمل، حصہ سوم، ص۴۹۶