گا؟ نیز صَبر کا ذہن کیسے بنایا جائے ؟
جواب : حدىثِ پاک مىں فرمایا گیا کہ صبر اَوَّل صَدمے پر ہوتا ہے ۔ (1 ) بعد مىں تو صَبر آ ہى جاتا ہے لہٰذا زبان سے اپنے دُکھڑے سُنانا اور پھر کہنا کہ بس اب صَبر ہی کر رہے ہیں تو یہ دُرُست نہیں ۔ یوں ہی بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب انہیں صَبر کرنے کا کہا جائے تو کہتے ہیں : ” سب صَبر کا ہى کہتے ہىں لیکن آپ ہمارے مسئلے کا کوئی حَل بھی کر دیں ۔ “
صَبر کا ذہن بنانے کے لیے کربلا والوں کی مصیبت کو یاد کیا جائے کہ ان پر کیسے مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے لیکن انہوں نے صَبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا ۔ بعض لوگوں کو جب کربلا والوں کی مِثال دے کر صَبر کی تلقین کی جاتی ہے تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ ” ہم ان جىسے نہیں جو صَدمہ بَرداشت کر سکیں ۔ “تو ایسوں کو یوں سمجھایا جائے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم ان جیسے نہیں لیکن قرآن و اَحادیث میں بیان کردہ صَبر کے فَضائل اور تَرغیب اُن نُفُوسِ قدسِیَّہ کے ساتھ خاص تو نہیں بلکہ جو بھی صَبر کرے گا اُسے اَجر ملے گا لہٰذا ہمیں بھی صَبر کر کے اَجرکمانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ صَبر کرنے والوں کے لیے فرمایا : )اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۵۳)(( پ۲ ، البقرة : ۱۵۳) ترجمۂ کنزالایمان : ” بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے ۔ “ تو اِس آیتِ مُبارَکہ میں اَنبیائے کِرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام
________________________________
1 - اِبن ماجه ، کتاب الجنائز ، باب ما جاء فی الصبر علی المصيبة ، ۲ / ۲۶۵ ، حدیث : ۲۵۹۶