مَرحبا! آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا جو بھی جُملہ زبان سے نکلتا وہ جچا تُلا ہوتا، جب بھی کسی کے بارے میں سُنتے کہ اس کا اِنتقال ہو گیا ہے تو فوراً دُعائے مَغفرت کے لیے ہاتھ اُٹھ جاتا ۔ اِس طرح کے بہت سے خُطُوط بھی حضرت کی خِدمت میں آتے ۔ ایک مَرتبہ کسی کے تعزیتی خط کا جواب لکھنا تھا ، مُفتی مُجِیْبُ الْاِسْلَام صاحِب سے فرمایا کہ یہ جواب لکھ دیں ، میں دَستخط کر دیتا ہوں ۔ چنانچہ مُفتی صاحِب نے جواب لکھا کہ”آپ کا خط مِلا صاحب زادے کے اِنتقال کی خبر پڑھ کر بہت اَفسوس ہوا ۔ “ حضرت نے جواب سُننے کے بعد فوراً ٹوکا، بہت اَفسوس تو نہیں ہوا، ہاں اَفسوس ہوا ۔ ( 1)
دیکھا آپ نے کہ حضور مُفتىِ اعظم ہند رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا تقوىٰ کیسا تھا کہ فرماىا : افسوس تو ہوا ہے مگر بہت افسوس نہىں ۔ ہمارے ہاں تو کسی کی مَیِّت ہو جائے تو اہلِ خانہ کو اچھا لگانے کے لیے اِس طرح کے جُملے بولے جاتے ہیں کہ ”بہت افسوس ہوا، اِنتہائی افسوس ہوا، ہم آپ کے غم میں برابر کے شَریک ہیں“اور حال یہ ہوتا ہے کہ مَیِّت کے اہلِ خانہ غم سے نڈھال ہوتے ہیں، ان سے کھایا پیا نہیں جا رہا ہوتا اور”غم میں برابر کے شریک ہونے “ کا دعویٰ کرنے والے ڈَٹ کر کھانے کے ساتھ ساتھ ٹھنڈے مَشروبات کی بوتلیں بھی چڑھا رہے ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ایسے اَلفاظ اِستعمال کرنے سے بچنا چاہیے ۔
________________________________
1 - جہانِ مفتی اعظم ، ص۳۱۹ رضا اکیڈمی ممبئی