میں جھونک سکتا ہے جیسا کہ سُلطانِ اِنس و جان ، رَحمتِ عالَمِیّان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عِبرت نشان ہے : بندہ کبھی اللہ پاک کی خوشنودی کی بات کہتا ہے اور اس کے گمان میں نہیں ہوتا کہ کہاں تک پہنچی( یعنی اپنے طور پر اسے معمولی بات سمجھتا ہے )لیکن اللہ پاک اُس کے سبب بندے کے لیے اپنی رضا قیامت تک کے لیے لکھ دیتا ہے ۔ بیشک آدمی ایک بات اللہ پاک کی ناراضی کی کہتا ہے اس کے گمان میں نہیں ہوتا کہ کہاں تک پہنچی ، ( یعنی اپنے نزدیک اسے معمولی بات تَصَوُّر کرتا ہے ۔ )لیکن اس کے سبب اللہ پاک اس پر قیامت تک اپنا غضب لکھ دیتا ہے ۔ (1 ) ایک رِوایت میں ہے کہ اس بات کی وجہ سے مشرِق و مغرِب کے دَرمیان میں جو فاصِلہ ہے اُس سے بھی زیادہ فاصِلہ پر جہنَّم میں گرتا ہے ۔ ( 2 ) حکیمُ الامَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہىں : فی صَدی پچانوے ( یعنی 100میں سے 95 فیصد ) گناہ زبان سے ہوتے ہیں اور پانچ فی صَدی گناہ دوسرے اَعضا سے ۔ ( 3)اللہ پاک ہم سب کو صحیح معنوں میں زبان کا قفلِ مدینہ( 4 ) لگانا نصیب فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم
________________________________
1 - مسند امام احمد ، حکیم بن حزام عن النبی ، ۵ / ۳۷۵ ، حدیث : ۱۵۸۵۲ دار الفکر بیروت
2 - مسلم ، کتاب الزھد و الرقائق ، باب التکلم بالکلمة...الخ ، ص۱۲۱۹ ، حدیث : ۷۴۸۱ دار الکتاب العربی بیروت
3 - مراٰۃ المناجیح ، ۶ / ۵۳ضیاء القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیا لاہور
4 - غیرضَروری باتوں سے بچنے کو دَعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں ”زَبان کا قفلِ مدینہ“ لگانا کہتے ہیں ۔ ( شعبہ فیضانِ مَدَنی مذاکرہ )