لیکن جیسے ہی اِنتقال کا پتا چلا تو مىرى نىند ہی اُڑ گئى ...اگر واقعی میں اىسا ہوا تھا تو یہ اَلفاظ بولنے مىں حَرج نہىں اور اگر ایسا نہىں ہوا تو اب یہ جھو ٹ ہو جائے گا ۔ ٭یہ کہنا کہ مجھے آپ کے والِد کے اِنتقال کى خبر سے سخت دَھچکا لگا ، بہت صَدمَہ ہوا ، مىں بہت اُداس ہو گىا ، مجھے سخت اَفسوس ہے ، ىہ تمام جُملے بھى قابلِ غور ہىں کیونکہ اِن میں مُبالغہ پایا جا رہا ہے ۔ (1 )عموماً ایسی کیفیت عام لوگوں کی نہیں ہوتی ۔ ہاں! جو قریبی عزیز ہیں مثلاً اولاد بھائی وغیرہ تو ان کی اپنے عزیز کے اِنتقال پر یہ کیفیت ہو جاتی ہے لہٰذا عام اَفراد کو چاہیے کہ تعزیت میں مُبالغہ آرائی کے بغیر جملے کہیں مثلاً مجھے اَفسوس ہوا ، صَدمَہ ہوا وغیرہ لیکن یہ بھی اُسی وقت کہیں جب واقعی صَدمَہ ہوا ہو ، ورنہ تو بسااوقات صَدمے والی کیفیت بھی
________________________________
1 - تعزیت کرنے میں مُبالغہ آرائی سے گریز کرنے پر شہزادۂ اعلیٰ حضرت ، تاجدارِ اہلسنَّت ، حضور مفتیٔ اعظم ہند مولانا مصطفے ٰ رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْمَنَّان کی حِکایت مُلاحظہ کیجیے : آپرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا جو بھی جُملہ زبان سے نکلتا وہ جچا تُلا ہوتا ، جب بھی کسی کے بارے میں سُنتے کہ اس کا اِنتقال ہو گیا ہے تو فوراً دُعائے مَغفرت کے لیے ہاتھ اُٹھ جاتا ۔ اِس طرح کے بہت سے خُطُوط بھی حضرت کی خِدمت میں آتے ۔ ایک مَرتبہ کسی کے تعزیتی خط کا جواب لکھنا تھا ، مفتی مجیب الاسلام صاحِب سے فرمایا کہ یہ جواب لکھ دیں ، میں دَستخط کر دیتا ہوں ۔ چنانچہ مفتی صاحِب نے جواب لکھا کہ”آپ کا خط مِلا صاحب زادے کے اِنتقال کی خبر پڑھ کر بہت اَفسوس ہوا ۔ “ حضرت نے جواب سُننے کے بعد فوراً ٹوکا ، بہت اَفسوس تو نہیں ہوا ، ہاں اَفسوس ہوا ۔ ایک مَرتبہ پوچھا کیا ٹائم ہو رہا ہے ؟ مفتی مجیب الاسلام صاحب نے فرمایا کہ بارہ بج رہے ہیں ، ایک دو مِنَٹ کے بعد حضرت کی گھڑی مِل گئی دیکھا تو ابھی تین مِنَٹ باقی تھے ۔ ( اِحتیاط کا ذہن دیتے ہوئے )فرمایا : ابھی تو تین مِنَٹ باقی ہیں ، آپ نے پانچ مِنَٹ پہلے ہی بتا دیا کہ بارہ بج رہے ہیں ۔ ( جہانِ مفتی اعظم ، ص۳۱۹ رضا اکیڈمی ممبئی )