اچھی نیتیں کرنی چاہیے تاکہ ثواب بھی ملے مثلاً تعزیت کرنا سُنَّت ہے لہٰذا اِس سُنَّت کو ادا کروں گا ۔ مسلمان کی دِلجوئی کر کے ثواب کماؤں گا ۔ ( 1) ٭ہمارے یہاں اب عام مسلمانوں سے تعزیت کرنے کا رُجحان کم ہوتا جا رہا ہے ۔ اگر تعزیت کریں گے بھی تو اپنے قریبی عزیزوں سے یا پھر کسی بڑی شخصیت کے اِنتقال پر اُس کے لَواحِقِین سے حالانکہ عام مسلمانوں سے بھی تعزیت کرنی چاہیے ۔ نیز گھر کے کسی ایک فَرد سے تعزیت کرنے کے بجائے تمام اَفراد سے فَردًا فَردًا تعزیت کی جائے کہ سبھی کو صَدمَہ پہنچا ہے ۔ (2 ) ٭تعزىت کرتے وقت اَلفاظ کے چُناؤ مىں اِحتىاط بہت ضَرورى ہے ورنہ جھوٹ بھی ہو سکتا ہے ۔ عموماً مُحتاط ذہن نہ ہونے کی بِناپر تعزیت کے اَلفاظ میں بہت مُبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے مثلاً مجھے آپ کے والِد کے اِنتقال کى خبر کھانا کھاتے ہوئے مِلی ، صَدمے کے سبب مىرے ہاتھ سے نَوالہ گِر گىا...مىں سونے کى تىارى کر رہا تھا
________________________________
1 - حدیثِ پاک میں ہے : جو اپنے مسلمان بھائی کی مصیبت ميں تعزیت کرے ، قیامت کے دِن اللہ پاک اُسے کَرامت کا جوڑا پہنائے گا ۔ ( ابنِ ماجه ، کتاب الجنائز ، باب ما جاء فی ثواب من عزَّی مصابا ، ۲ / ۲۶۸ ، حديث : ۱۶۰۱ دار المعرفة بيروت )ایک اور حدیثِ پاک میں اِرشاد فرمایا : جو کسی مصیبت زَدہ کی تعزیت کرے ، اُسے اُسی کے مِثل ثواب ملے گا ۔
( ترمذی ، کتاب الجنائز ، باب ما جاء فی أجر من عزَّی مصابا ، ۲ / ۳۳۸ ، حديث : ۱۰۷۵ دار الفكر بيروت )
2 - صَدرُالشَّریعہ ، بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : مستحب یہ ہے کہ مَیِّت کے تمام اَقارِب کو تعزیت کریں ، چھوٹے بڑے مَرد و عورت سب کو مگر عورت کو اُس کے مَحارم ہی تعزیت کریں ۔ ( بہارِ شریعت ، ۱ / ۸۵۲ ، حصہ : ۴ مکتبۃا لمدینہ باب المدینہ کراچی )