دِل میں بُرا مانیں کہ نہ جانے کیسا آدمی ہے ہمیں تکلیف میں ڈال کر خود بڑے سکون سے لوگوں کے ہجوم میں بیٹھا ہے ۔ نیز اگر وہ دعوتِ اسلامی سے واقِف ہوئے تو اس کے بارے میں بھی دُرُست رائے قائم نہیں کریں گے ۔ مِنٰی اور عَرفات میں تو بہت زیادہ آزمائِش کا سامنا کرنا پڑ جائے گا کیونکہ وہاں خیموں میں مَردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی ہوتی ہیں اور ہم ان کے پَردے کا اِہتمام کرتے ہوئے دَرمیان میں چادریں لٹکا دیتے ہیں ۔ اگر کثیر اسلامی بھائی مجھ سے مُلاقات کے لیے آ گئے تو پَرد ے میں موجود اسلامی بہنیں پریشان ہو جائیں گی اور انہیں پَردے کے مُعاملات میں سخت دُشواری پیش آئے گی ۔ ہوٹل یا خیموں کے عِلاوہ کسی اور مقام پر بھی میں مُلاقات کے لیے نہیں بیٹھ سکتا کیونکہ وہاں بھی سخت بھیڑ لگ جانے کا اَندیشہ رہے گا جس سے آنے جانے کا راستہ متأثر ہو سکتا ہے لہٰذا یہ بھی مُنا سِب نہیں ۔ ہجوم کی وجہ سے وہاں پر موجود پولیس والے کسی کو ایک جگہ پر مستقل بیٹھنے بھی نہیں دیتے بلکہ حج کے موقع پر کیونکہ بہت ہجوم ہو جاتا ہے اِسی وجہ سے وہاں کے مقامی لوگوں کے لیے حج کرنے کے سخت قَوانین بنادیئے گئے ہیں ۔ ورنہ پہلے گِرد و نواح بلکہ جَدّہ تک سے کئی لوگ حج کے لیے آ جایا کرتے تھے جس کی وجہ سے شدید اِزدِحام ہو جاتا تھا مگر اب اس کی اِجازت نہیں ہے ۔ ایسی صورت میں اگر میں ہجوم لگا کر بیٹھ گیا تو کئی مَسائِل کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ لہٰذا سفرِ حج میں جو اسلامی بھائی مجھ سے ملنا چاہتے ہیں وہ میدانِ