جواب : اونٹوں ، گھوڑوں اور پیدل سفر کے مَناظِر 1967 ءسے بھی پہلے کے ہیں جبکہ حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْن زَادَہُمَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً کی میری پہلی حاضِری 1980ء میں ہوئی تھی ۔ راہِ مدینہ میں ایسی سواریاں دیکھنا یاد نہیں پڑتا ، شاید اُس وقت اِن سواریوں پر قانونی پابندی لگ چکی تھی ۔ اب تو اونٹوں اور گھوڑوں پر سفر کرنے کا تصوُّر بھی نہیں ہے اور یہ قانون سمجھ میں بھی آتا ہے کیونکہ ٹریفک اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ اس میں اگر کوئی اونٹ یا گھوڑا بِدک کر کسی گاڑی سے ٹکرا جائے تو ایکسیڈنٹ ہو جانے کا اَندیشہ ہے اور چونکہ یہ جانور ہیں اِس لیے ٹریفک کے قَوانین بھی ان پر لاگو نہیں ہوتے ۔ پھر یہ جانور لِید اور گوبر وغیرہ بھی راستے میں کرتے ہیں ، انہیں آسانی کے ساتھ چلنے کے لیے ریتلی زمین چاہیے کہ جانور ریتلی زمین پر تیز چل سکتے ہیں بالخصوص اونٹ کہ اسے تو ریگستان کا جہاز کہا جاتا ہے جبکہ دوسری گاڑیوں کے لیے ڈامر کی پکی سڑک ہونی چاہیے تو یوں ان سواریوں کا آپس میں میل مشکل ہے ۔
بہرحال اِس طرح کے بہت سارے قَوانین عوام کی سہولت کے لیے ہوتے ہیں جب تک یہ خلافِ شَرع نہ ہوں ان پر عمل کرنا چاہیے ۔ حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْن زَادَہُمَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً میں اِن پر سختی سے عمل کرایا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ۔ جشنِ وِلادت اور جُلُوسِ مِیلاد وغیرہ کے مَواقع پر اونٹوں اور گھوڑوں وغیرہ کو سڑکوں پر نہ لانے کی تَرغیب دِلائی جاتی ہے ، اس کے باوجود لوگ ان