کریں یا پھر کسی دِیانت دار اور پرہیزگار کاروان والے کو رَقم دے کر اپنی قربانی کا وَکیل بنا دیں ۔ حجاج اللہ پاک کے مہمان ہوتے ہیں مگر انہیں بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے ۔ حج کے دِنوں میں کرایوں کے دام بھی بڑھا دیئے جاتے ہیں جس کے سبب حجاج کو آزمائِش کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ عام دِنوں میں مِنیٰ سے مسجدِ حَرام شریف تک کا کرایہ دو رِیال ہوتا ہے مگر جب حاجی مِنیٰ سے طوافِ زیارت کے لیے مسجدِ حَرام شریف جاتے ہیں تو کرایہ دو رِیال سے بڑھا کر 20 یا 30 رِیال کر دیا جاتا ہے ۔
اِسی طرح حَرم شریف میں قربانی کے جانور بیچنے والے ان جانوروں کو بھی ” ہٰذَا کَامِل ، ہٰذَا کَامِل“ کہہ کر چلا رہے ہوتے ہیں جو قربانی کی شَرائط پر پورا نہیں اُترتے مثلاً قربانی کی شَرائط میں سے ہے کہ جانور کے کان ثابِت ہوں اور اگر کوئی کان کٹا بھی ہوتو ایک تہائی سے زیادہ نہ کٹا ہو ورنہ قربانی نہیں ہو گی لیکن عوام اور بیچنے والے شاید سمجھتے ہیں کہ کان کا مٹھی میں آنا ضَروری ہے ، یہی وجہ ہے کہ حَرم شریف میں بیچنے والے کان مٹھی میں پکڑ پکڑ کر دِکھا رہے ہوتے ہیں لیکن اصل مَسئلہ یہی ہے کہ ” اگر جانور کا کان ایک تہائی سے زیادہ کٹا ہوا ہو تو قربانی نہیں ہو گی ۔ “ (1) مٹھی سے کم زیادہ ہونا مِعیار نہیں ۔
یوں ہی بیچنے والے کم عمر جانور کو بھی ” ہٰذَا کَامِل“ کہہ دیتے ہیں لیکن ظاہر
________________________________
1 - دُرِّمُختار ، کتاب الاضحیة ، ۹ / ۵۳۶-۵۳۷