اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے دلِ بے کس کا اِس آفت میں آقا تُو ہی والی ہے
اُترتے چاند ڈھلتی چاندنی جو ہو س کے کر لے اندھیرا پاکھ ۱؎ آتا ہے یہ دو دن کی اُجالی ہے
اندھیرا گھر، اکیلی جان، دَم گھٹتا، دل اُکتاتا خدا کو یاد کر پیارے وہ ساعت آنے والی ہے
نہ چَونکا دن ہے ڈھلنے پر تِری منزل ہوئی کھوٹی ارے او جانے والے نیند یہ کب کی نکالی ہے
رضاؔ منزل تو جیسی ہے وہ اِک میں کیا سبھی کو ہے
تم اس کو روتے ہو یہ تو کہو یاں ہاتھ خالی ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یقین مانئے!قَبْرِستانمیں دَفْن ہونے والے آج ہمیں زبانِ حال سے نصیحت کررہے ہیں :’’اے غافل انسانو ! یاد رکھو! کل ہم بھی وہیں (یعنی دنیا میں ) تھے جہاں آج تم ہو اور کل تم بھی یہیں (یعنی قبر میں ) آپہنچو گے جہاں آج ہم ہیں۔‘‘یقیناجو دنیا میں پیدا ہوا اُسے مرناہی پڑے گا، جس نے زندگی کے پھول چُنے اسے موت کے کانٹے نے ضَرور زخمی کیا، جس نے خوشیوں کا گَنج (یعنی خزانہ) پایا اسے موت کا رَنج مل کر رہا !
ہم دنیا میں ترتیب وار آئے ہیں لیکن……
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہم اِس دنیا میں ایک ترتیب سے آئے ضَرور ہیں یعنی یوں کہ پہلے دادا پھر باپ پھر بیٹا پھر پوتا لیکن مرنے کی ترتیب ضَروری نہیں ،بوڑھا
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینہ
۱؎ اندھیرا پاکھ یعنی مہینے کے آخری پندرہ دن