(حکایت :۹)پیکرِ شرم وحیا
غالباً۱۴۰۹ھ کی بات ہے کہ امیرِاہلسنّتدَامَتْ بَرَکَاتُہُم العَالِیَہ کے پاؤں میں فریکچر ہوگیا۔ آپ کے ابتدائی دور کے ایک اسلامی بھائی کا کہنا ہے کہ ہم آپ کو ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر نے پلاستر کرنا چاہا اور آپ کے پاجامے کے پائنچے کو زیادہ اوپر کرنے کا کہا توامیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُم العَالِیَہ نے فرمایا:فریکچر پنڈلی میں ہے اس لئے میں گھٹنے سے اوپر کپڑا نہیں کروں گاکیونکہ بلا ضرورت ستر کھولنے کی شرعاًاجازت نہیں اور ناف سے لے کر گھٹنے تک کا حصہ سِتْرِ عورت ہے، جس کا چھپانا ضروری ہے، چونکہ گھٹنے سے اوپر کپڑا کیے بغیر پنڈلی پر پلاستر ممکن ہے تو پھر بلا حاجت ستر کیوں ظاہر ہونے دوں ۔آخر کارگھٹنے پر سے کپڑا ہٹائے بغیر پلاستر کردیا گیا۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مدنی ماحول میسر نہ ہونے کی وجہ سے علمِ دین سے دوری کی بِنا پر دیگر کئی معاملات کی طرح علاج کے معاملے میں بھی مسلمانوں کی ایک تعداد بے احتیاطی کا شکار نظر آتی ہے۔بلاضرورت اعضائے ستر کو کھول دینا،مرد کے ہوتے ہوئے نَرس سے انجکشن لگوانے کا مطالبہ کرنایا عورتوں کا لیڈی ڈاکٹر کو چھوڑ کر مرد سے علاج کرواناعجیب تر ہے۔حالانکہ مرد کا عورت سے اور عورت کا مرد سے پردہ ہے اور بلا ضرورتِ شرعی ستر کھولنا یا کسی کے