(حکایت :۸)مالِ وقف کی حفاظت
یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب امیرِ اہلسنّتدَامَتْ بَرَکَاتُہُم العَالِیَہ نے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کو آباد کرنے کے لیے اولڈ سٹی ایریا کو چھوڑ کر پیرالٰہی بخش کالونی میں رہائش اختیار فرمائی۔آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُم العَالِیَہکم و بیش ایک کلومیٹر پیدل سفر فرما کر فیضانِ مدینہ میں باجماعت نماز ادا فرماتے۔ابھی عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ باب المدینہ کراچی کی تعمیر جاری تھی۔ایک دن گھر سے تشریف لاتے ہوئے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُم العَالِیَہ نے جیب سے ایک کنکر نکالا اور بجری کے ڈھیر میں شامل فرما دیا۔اور یوں ارشاد فرمایا: جب میں گھر پہنچا تو مجھے محسوس ہوا کہ فیضانِ مدینہ کی تعمیر میں استعمال ہونے والی اس بجری کا ایک کنکر اتفاق سے میری چپل میں پھنس گیا ہے میں نے اسے واپس لاکراسی بَجْری میں ڈال دیا ہے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے !امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُم العَالِیَہ مالِ وقف کے متعلق کس قدر احتیاط فرماتے ہیں کہ ایک معمولی کنکر بھی ضائع نہیں ہونے دیتے۔اللّٰہ والوں کا شروع سے ہی معمول رہا ہے کہ وہ وقف کی اِملاک و اَموال کے بارے میں بہت حسا س ہوتے ہیں مَبادا ہم سے کوئی معمولی ذرہ بھی ضائع نہ ہو جائے کہ بروزِ قیامت اس کے حساب کا سامنا کرنا پڑ