دیتا اور یوں مدَنی ماحول کی برکتوں سے اپنے آپ کو محروم رکھتا۔ شب و روز اسی طرح گزرتے گئے یہاں تک کہ ماہِ ربیع الاوّل اپنی برکتوں کے ساتھ ہمارے درمیان جلوہ گر ہوگیا اور عاشقانِ میلاد اس کی برکتیں سمیٹنے میں مشغول ہوگئے۔ خوشیوں کے اس پُربہار موسم میں ایک دن میرے پڑوسی اسلامی بھائی تشریف لے آئے اور بڑی محبت سے اجتماعِ میلاد میں شرکت کی دعوت پیش کی، مزید شفقت فرماتے ہوئے کہنے لگے آپ میرے ساتھ ہی چلیں ، اُن کا پیار بھرا انداز دِل میں اثر کر گیا، اس باران کے ساتھ اجتماعِ میلاد میں جانے کے لیے تیار ہوگیا، میرے اقرار پر مبلغِ دعوتِ اسلامی خوش ہوگئے اور یوں میں زندگی میں پہلی بار اپنے خیرخواہ اسلامی بھائی کے ساتھ دعوتِ اسلامی کی بہاریں دیکھنے کے لیے روانہ ہوگیا جب میں نے اجتماع گاہ میں قدم رکھا توعاشقانِ میلاد کا جمِ غفیر دیکھ کرحیرت زدہ رہ گیا، کثیرتعداد میں نوجوان اسلامی بھائی مدنی حلیے میں ملبوس دکھائی دے رہے تھے ، برقی قُمْقُموں سے اجتماع گاہ جگمگارہا تھا۔ ایک روحانی منظر تھا جسے دیکھ کر دل شاد ہوگیا، میں بھی اپنا خالی دامن رحمتوں سے بھرنے کے لیے ایک طرف بیٹھ گیا، نعت خواہ اسلامی بھائی اپنی مُدبھری آواز میں نعتِ رسولِ مقبول کا نذرانہ پیش کررہے تھے، حاضرین پر وجدانی کیفیت طاری تھی، مرحبا یامصطفٰے صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم، مرحبا یامصطفٰے صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی