نذر ہورہے تھے۔ شرابی دوستوں کی منڈلیوں میں شراب کے جام پیے جاتے، ہنسی مذاق کے فوارے بلند ہوتے،رات گئے شراب کے نشے میں دُھت اس حالت میں گھرکا رُخ کرتاکہ شراب کی بدبو منہ سے آرہی ہوتی، لڑکھڑاتے قدموں سے جب گھرمیں داخل ہوتا تواس کی حا لتِ بد کو دیکھ کر سب پریشان ہوجاتے، والد صاحب یا گھر کاکوئی فرد سمجھاتا تو آپے سے باہر ہوجاتا، گالی گلوچ، چیخ وپکار کرتا اور سمجھانے والے کو خاطرمیں نہ لاتا، شراب نوشی کی عادتِ بد چھوڑنے کو تیار نہ ہوتا، بس شب وروز اپنی موج مستیوں میں مگن رہنا ان کا کام تھا۔ صحبت بد کی وجہ سے اخلاق وکردار بھی بہت خراب تھے، ہروقت ان کے پاس اسلحہ ہوتا، جس سے لوگوں کو ڈراتا اور ان پر اپنا رُعْب ودَبْدبہ جماتا، معمولی باتوں پر اہل علاقہ سے لڑائی جھگڑا کرنا، ماردھاڑکرنا ان کا معمول بن چکا تھا، ان کی روز روز کی شر انگیزیوں سے جہاں گھروالے پریشان تھے وہیں اہل علاقہ بھی بیزار تھے، لوگ ان کی عادات بد سے خائِف تھے، جب یہ گھر سے باہر نکلتا تو لوگ اسے دیکھ کررب عَزَّوَجَلَّکی پناہ طلب کرتے، مزید جہاں خود اس سے بچتے وہیں اپنی اولاد کو بھی اس کے سائے سے دور رہنے کی تاکید کرتے ۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ مجھے دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول میسرتھا ، میری خواہش تھی کہ یہ شرابی دوستوں کی صحبت سے بچ کر دعوت ِاسلامی کے مشکبار مدنی