سے قبل بد قسمتی سے میرا اُٹھنا بیٹھنا جرائم پیشہ افراد کے ساتھ تھا۔ بُرے دوستوں کی صحبت کے باعث غنڈا گینگ میں شامل ہوگیا تھا۔ لوگوں کو مارنا پیٹنا اور گالیاں بکنا میرا معمول تھا۔ جان بوجھ کر جھگڑے مول لیتا، لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے لئے اسلحہ پاس رکھتا، لوگوں کو ظلم وستم کا نشانہ بناتا ، روز بروز میرے گناہوں کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ میرے کالے کرتوتوں کی وجہ سے مجھے کوئی منہ نہ لگاتا تھا۔ گھر والے، عزیز و اقارب، اہلِ علاقہ سبھی مجھ سے بیزار تھے، الغرض میں غفلت کی چادر اوڑھے گہری نیند سو رہا تھا۔اس ہلاکت خیز نیند سے بیداری کچھ یوں نصیب ہوئی، ہمارے علاقے میں دعوتِ سلامی کے مشکبار مدنی ماحول سے وابستہ ایک بزرگ اسلا می بھائی رہتے تھے جو شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے مرید تھے اور آپ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ جب بھی کسی سے ملتے تو شیخِ طریقت، امیراہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے خوفِ خدا، عشقِ مصطفے اور ان کے تقویٰ و پرہیزگاری کا تذکرہ ضرور کرتے اور بسا اوقات دورانِ گفتگو محبتِ عطار میں ان کی آنکھیں اشکبار ہو جایا کرتیں ۔ فیضانِ مدینہ سے ان کی انسیت کا اندازہ اس بات سے باخوبی لگایاجاسکتاہے کہ وہ لیاقت آباد (عالمی مدَنی مرکز فیضانِ مدینہ سے قریب ایک علاقے) سے پیدل نمازِ فجر پڑھنے فیضانِ مدینہ آتے۔