شان ایسی اَرْفع واعلیٰ ہے کہ جن کی زیارت کرنے والے خوش نصیب صحابی بن گئے ، جن کی تسکین سے روتے ہوئے ہنس پڑیں، جن کے لعابِ دہن سے مریضوں کو شفا ملی، جن کے دَرسے آج بھی حاجت مند منہ مانگی مرادیں پاتے ہیں ، صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ درخت، جانور اورپتھربھی جن کا حکم بجالانے میں پیش پیش دکھائی دیں، ایسے شان والے مَدَنی تاجدار ،رسولوں کے سالار صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دربار کے آداب بھی بہت اعلیٰ ہیں ، قراٰن پاک پارہ26سورۂ حجرات کی دوسری آیت میں ارشادِ ربِّ پاک ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرْفَعُوۡۤا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوۡا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہۡرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنۡ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَ اَنۡتُمْ لَا تَشْعُرُوۡنَ ﴿۲﴾ (پ۲۶،الحجرات:۲)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی)کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔
صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادیعلیہ رحمۃُ اللّٰہِ الہادیاِس آیت کے تحت لکھتے ہیں :اس آیت میں حضور کا اِجلال و اِکرام و ادب واِحترام تعلیم فرمایا گیا اور حکم دیا گیا کہ نِدا کرنے(یعنی پکارنے) میں ادب کا پورا لحاظ