اس حدیث سے یہ نکتہ اخذ کیا ہے کہ بانسری بجانے والا قیامت کے دن اپنی بانسری کے ساتھ آئے گا،شرابی اپنے جام کے ساتھ جبکہ مؤذن اذان دیتا ہوا آئے گا۔
(التیسیر،۲/۵۰۷)
آگ کے صَندوق
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جس کسی بدنصیب کا کفر پر خاتمہ ہوگااس کوقبر اِس زور سے دبائے گی کہ اِدھر کی پسلیاں اُدھر اور اُدھر کی اِدھر ہو جائیں گی۔ کافِر کیلئے اِسی طرح اوربھی دردناک عذاب ہونگے۔ قِیامت کا پچاس ہزار سالہ دن سخت ترین ہولناکیوں میں بسرہوگا،پھر اسے اَوندھے مُنہ گھسیٹ کر جہنَّم میں جھونک دیا جائے گا۔ جوگنہگار مسلمان داخِلِ جہنَّم ہوئے ہونگے ان کو نکال لیا جائے گا اوردوزخ میں صِرف وُہی لوگ رَہ جائیں گے جن کا کفر پر خاتِمہ ہوا تھا۔ پھر آخر میں کفار کے لیے یہ ہوگا کہ اس کے قد برابر آگ کے صندوق میں اُسے بند کریں گے، پھر اس میں آگ بھڑ کائیں گے اور آگ کا قُفل(یعنی تالا) لگایا جائے گا، یہ صندوق آگ کے دوسرے صندوق میں رکھا جائے گا اور ان دونوں کے درمیان آگ جلائی جائے گی اور اس میں بھی آگ کا قُفل لگایا جائے گا، پھر اِسی طرح اُس کو ایک اور صندوق میں رکھ کر اور آگ کا قفل لگا کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ موت کو ایک مَینڈھے کی طرح جنَّت اور دوزخ کے درمیان لاکر ذَبح کردیا جائے گا۔ اب کسی کو موت نہیں آئے گی۔