رہنا(۲)قَساوتِ قلبی(۳)دنیاکی محبت(۴) حیاکی کمی (۵)لمبی اُمید اور (۶)حد سے زیادہ ظُلْم کرنا ۔(کنز العمال،جزء ۱۶،۸/۳۶ حدیث:۴۴۰۱۶)
حضرتِ سیِّدُنا علامہ عبد الرء وف مناوی علیہ رحمۃُ اللّٰہِ الہادیفرماتے ہیں : لوگوں کے عیبوں کی ٹوہ میں لگنے سے مراد ان کے عیوب کو دیکھنا اور ان کے بارے میں گفتگو کرنا لیکن اپنے عیبوں کی طرف توجہ نہ کرناجبکہ قَساوتِ قلبی کا مطلب ہے ، دل کا سخت ہونا اور ترغیب و ترہیب کو قبول نہ کرنا۔ مزید فرماتے ہیں کہ دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے ۔
(فیض القدیر،۴/ ۱۲۵،تحت الحدیث : ۴۶۵۸)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس فرمانِ مصطَفٰی صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں چھ چیزوں کا بیان ہے ، ان کے بارے میںمزید روایات ملاحظہ فرمائیے،چنانچہ
(۱)عیب نہ ڈھونڈو
پارہ 26سُوْرَۃُ الْحُجُرَاتکی آیت12میں خدائے ستّار عَزَّوَجَلَّ نے دُوسروں کے اندر بُرائیوں کو تلاش کرنے سے منع کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا:
وَ لَا تَجَسَّسُوۡا (پ۲۶،الحجرٰت:۱۲)
ترجمہ کنز الایمان:اور عیب نہ ڈھونڈو۔
صَدْرُ الْافاضِل حضرت علّامہ مَولانا سَیِّد مُفتی محمد نعیمُ الدِّین مُراد آبادیعلیہ رحمۃُ اللّٰہِ الہادی اِس آیت کے تحت لکھتے ہیں:یعنی مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور اُن کے چُھپے حال کی تلاش میں نہ رہو،جسے اللّٰہعَزَّوَجَلَّنے اپنی سَتّاری سے چُھپایا۔