نیا لباس پہنایا اور اختیار دیا کہ وہ چاہے تو ہمارے شہر میں عزت والے مکان یا محل میں رہے اور چاہے تو اپنے شہر چلا جائے۔ اس نے اپنے شہرجانا پسند کیا۔میں نے ایک خچّر منگوایا اورزادِراہ دے کر اسے خچر پر خود سوار کیا۔ اس نے مجھے دعادی: ’’ اللّٰہعَزَّوَجَلَّاپنے پسندیدہ دین پر تیراخاتِمہ فرمائے۔‘‘اس کا یہ جملہ مکمل نہ ہوا تھا کہ میرے دل میں دینِ اسلام کی محبت گھر کر گئی، پھر میں نے اپنے دس غلام اُس کے ہمراہ بھیجے۔ انہیں حکم دیاکہ اسے نہایت احترام کے ساتھ لے جاؤ۔پھر اس کو ایک دوات اور کاغذدیا اورایک نشانی مقرر کر لی کہ جب وہ بحفاظت تمام اپنے مقام پر پہنچ جائے تو وہ نشانی لکھ کر میری طرف بھیج دے۔ہمارے اور اس کے شہر کے درمیان پانچ دن کا فاصلہ تھا۔ جب چھٹا دن آیا تو میرے خُدَّام میرے پاس آئے، ان کے پاس رُقْعہ بھی تھا جس میں اس کا خط اور وہ علامت موجود تھی۔ میں نے اپنے غلاموں سے جلدی پہنچنے کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے بتا یا کہ جب ہم اس کے ساتھ یہاں سے نکلے تو ہم کسی تھکاوٹ اور مشقّت کے بِغیر گھڑی بھر میں وہاں پہنچ گئے لیکن واپسی پر وہی سفر پانچ دنوں میں طے ہوا۔ان کی یہ بات سنتے ہی میں نے پڑھا:اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَ اَنَّ دِیْنَ الْاِسْلَامِ حَقٌّ(یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللّٰہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں اور دینِ اسلام حق ہے )پھر میں روم سے نکل کر مسلمانوں کے شہرآگیا۔(الروض الفائق ،ص ۹۵)