نمازِعصر کی خاص تاکید
صاحبِ مُعَطَّر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :مَنْ تَرَکَ صَلَاۃَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗیعنی جونمازعصر چھوڑدے اس کے عمل ضبط ہوگئے۔ (بخاری،کتاب مواقیت الصلاۃ،باب من ترک العصر،۱/۲۰۳، حدیث:۵۵۳)
حضرت علامہ مولانا عبدالرء ُوف مَناوی شافعیعلیہ رحمۃُ اللّٰہِ القوی اس حدیثِ پاک کے تحت تحریر فرماتے ہیں:یعنی اس کا ثواب ضائع ہوجائے گا،یہاں گزشتہ عمل کا باطل ہونا مراد نہیں کیونکہ یہ صرف اس کے لئے ہے جو مرتد ہوکر مرجائے چنانچہ عمل ضبط ہونے کو اس دن کے نقصان پر محمول کیا جائے گا۔حضرت سیدنا علامہ دمیری علیہ رحمۃُ اللّٰہِ القوی نے اس فرمان کو اس شخص کے بارے میں قرار دیا ہے جو نماز ترک کرنے کو حلال سمجھے یا اس کی عادت بنالے یا پھر یہاں ثواب کا ضائع ہونا مراد ہے۔(فیض القدیر، ۳/۲۶۹،تحت الحدیث:۳۱۵۸)
مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں :غالبًاعمل سے مراد وہ دنیوی کام ہیں جس کی وجہ سے اس نے نمازِعصرچھوڑی۔ضبطی سے مراد اس کام کی برکت کا ختم ہوناہے،یایہ مطلب ہے کہ جوعصرچھوڑنے کاعادی ہوجائے اس کے لئے اندیشہ ہے کہ وہ کافرہوکر مرے جس سے اعمال ضبط ہو جائیں،اس کا مطلب یہ نہیں کہ عصرچھوڑناکفر واِرتدادہے۔