Brailvi Books

نیکیاں برباد ہونے سے بچائیے
36 - 100
 پوچھنے سے باز رہتا اور یوں اپنے آپ پر اور اپنی رائے پر اعتِماد کرتا ہے۔(کہ میں بھی تو سمجھ بوجھ رکھتا ہوں ، کیا ضَرورت ہے کہ دوسروں سے مشورہ لوں!) (احیاء علوم الدین، کتاب ذم الکبر والعجب،بیان آفۃ العجب،۳/۴۵۳)آگے چل کر مزید فرماتے ہیں:عابِد کو اپنی عبادت پر ، عالم کو اپنے علم پر،خوبصورت کو اپنی خوبصورتی اورحُسن وجمال پر اور مالدار کو اپنی مالداری پر اِترانے کاکوئی حق نہیں پہنچتا کیونکہ سب کچھ اللہِ تَعَالٰی کے فضل و کرم سے ہے۔(ایضًا،ص۴۵۵)یعنی ذِہانت ،علاج کرنے کی صلاحیّت ، خوش الحانی و خوش بیانی وغیرہ کی نعمت وغیرہ جس کو جو کچھ مِلا اُس میں بندے کا اپنا کوئی کمال ہی نہیں جو دیا جتنا دیا سب اللہِ تَعَالٰی نے ہی دیاہے۔
خود پسندی کا علاج
	  حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی  فرماتے ہیں :صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ( مُتَّقی و پرہیز گار اورصِدق واخلاص کے پیکر ہونے کے باوُجُود خدا کے ڈر کے سبب) تمنّا کیا کرتے تھے کہ کاش! وہ مٹّی ، تنکے اور پرندے ہوتے۔(تا کہ بُرے خاتمے اور عذابِ قبر وآخِرت سے بے خوف ہوتے)تو جب صَحابہ کی یہ کیفیت تھی توکوئی صاحِبِ بَصیرت( سمجھدار شخص) کس طرح اپنے عمل پر اِتراسکتا یا ناز کر سکتا ہے اور کس طرح اپنے نَفْس کے مُعامَلے میں بے خوف رہ سکتا ہے! تویہ (یعنی صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا خوف اوران کی عاجِزی ذِہن میں رکھنا) خود پسندی