جائے کبھی رب تعالیٰ اخلاص بھی نصیب کر ہی دے گا،مکھیوں کی وجہ سے کھانا نہ چھوڑے۔(مراۃ المناجیح،۵/۴۴۹)
کیا دینی خدمت پر تنخواہ لینے سے ثواب کم ہوجاتا ہے؟
مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان فرماتے ہیں :اگر نیت خیر ہو تو دینی خدمت پر تنخواہ لینے کی وجہ سے اس کا ثواب کم نہیں ہوتا،دیکھو ان عاملوں کو پوری اُجرت دی جاتی تھی مگر ساتھ میں یہ ثواب بھی تھا۔ چنانچہ مجاہد کو غنیمت بھی ملتی ہے اور ثواب بھی،حضرات خلفائے راشدین سوائے حضرت عثمان غنی(رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم) کے سب نے خلافت پر تنخواہیں لیں مگر ثواب کسی کا کم نہیں ہوا،ایسے ہی وہ علماء یا امام و مؤذن جو تنخواہ لے کر تعلیم،اذان،امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں اگر ان کی نیت خدمت دین کی ہے تو اِنْ شَآءَاللہثواب بھی ضرور پائیں گے۔(مراۃ المناجیح،۳/۱۸)ایک اور حدیث کی شرح میں مفتی صاحب لکھتے ہیں:اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ نیک اعمال کی اُجرت لینا جائز ہے۔چنانچہ علماء ،قاضی، مدرسین حتی کہ خود خلیفہ کی تنخواہ بیت المال سے دی جائے گی،سوائے حضر ت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہکے باقی تینوں خلفاء (رضی اللّٰہ تعالٰی عنھم)نے بیت المال سے خلافت کی تنخواہ وصول کی ہے۔ دوسرے یہ کہ جب کام کرنے والے کی نیت خیر ہو تو تنخواہ لینے سے اِنْ شَآءَاللہ ثواب کم نہ ہوگا۔صرف تنخواہ کے لیے دینی کام نہ کرے تنخواہ تو گزارے کے لئے وصول کرے ،اصل مقصد