میری ہجرت مال کے لئے نہیں تھی (حکایت:9)
حضرتِ سیدنا عمرو ابن عاص رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے سرکارِمدینۂ منوّرہ،سردارِمکّۂ مکرّمہصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پیغام بھیجا کہ اپنے ہتھیار اور اپنے کپڑے پہن لو پھر میرے پاس آؤ۔میں حضورپُر نور صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے پاس حاضر ہوا تو آپصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم وضو کررہے تھے۔ فرمایا: اے عمرو! میں نے تمہیں اس لئے پیغام بھیجا تاکہ تمہیں ایک کام میں بھیجوں، تمہیں خدا تعالیٰ سلامت لوٹائے گا اور غنیمت دے گااور ہم تم کو کچھ مال بھی عطا فرمائیں گے، تو میں نے عرض کی:یارسولَاللّٰہصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّممیری ہجرت مال کے لئے نہ تھی وہ تو صرف اللّٰہ ورسولعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے تھی، فرمایا: نیک آدمی کے لیے اچھا مال بہت ہی اچھا ہے۔(مشکاۃ المصابیح،کتاب الامارۃ والقضاء،باب رزق الولاۃ وھدایاہم، ۲/۱۷، حدیث:۳۷۵۶)
مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں :یعنی ثواب، عزت کے علاوہ ہم تم کو اُجرت و معاوضہ بھی عطا فرمائیں گے، یہ حدیث حکام کی تنخواہ کی اصل ہے مقرر اِس لئے نہ فرمائی کہ حضور (صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)مالک ہیں،غلاموں کو جو چاہیں عطا فرمادیں،یہ محض تنخواہ نہ تھی بلکہ عطیہ شاہانہ بھی تھا اور اب تنخواہ کا مقررکرنا ضروری ہے کہ اِجارہ میں کام و مال دونوں مقرر ہونے چاہئیں لہٰذا حدیث واضح ہے اس پر اِعتراض نہیں۔