روپے کے بارہ روپے دیں گے یعنی دس روپے پر دو روپے نفع،آپ نے ارشادفرمایا: مجھے اس سے زیادہ نفع مل رہاہے۔تاجروں نے کہا: دس روپے کے چودہ روپے لے لیں۔آپ نے فرمایا:مجھے زیادہ ملتا ہے۔انہوں نے کہا:دس کے پندرہ لے لیں۔ آپ نے فرمایا:مجھے اس سے زیادہ نفع مل رہا ہے۔انہوں نے کہا:مدینہ کے تاجر توہم ہیں ، آپ کو کون زیادہ نفع دے رہا ہے؟ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہنے ارشاد فرمایا:مجھے ایک روپے پر دس روپے منافع مل رہا ہے،تم اس سے زیادہ دو گے؟انہوں نے کہا:ہم اتنا منافع نہیں دے سکتے۔آپ نے فرمایا:اے تاجروں کی جماعت!اس بات پر گواہ ہوجاؤ کہ میں نے یہ تمام اشیاء خوردنی مدینے کے ضرورت مندوں کے لئے صدقہ کردی ہیں۔حضرت سیدنا عبداللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنھما فرماتے ہیں:میں جب رات کو سویا تو خواب میں سید عالم،نور مجسم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت کی،آپ نے نور کی چادر پہن رکھی تھی ،مبارک ہاتھوں میں نور کی چھڑی اور پاؤں مبارک میںجو نعلین تھے ان کے تسمے بھی نورانی تھے۔میں نے عرض کی:میرے ماں باپ آپ پر قربان یارسولَاللّٰہصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم!آپ کی طرف میرا اشتیاق بڑھتا جاتا ہے۔سرکار مدینہ،راحت قلب وسینہ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:میں جلدی میں ہوں،عثمان نے ایک ہزار اونٹ کا بوجھ گندم وغیرہ صدقہ کیا ہے۔ اللّٰہعَزَّوَجَلَّنے عثمان کا یہ عمل قبول فرماکر جنتی حور سے ان کا نکاح فرمایا ہے ۔(الریاض النضرۃ،۲/۴۳)