مگر اس کے آداب اب تک وہی باقی،اس کا طمطراق اسی طرح برقرار،پھر اس دربار کے قوانین فقط انسانوں پر ہی جاری نہیں بلکہ وسعتِ سلطنت کا یہ حال ہے کہ فرشتے بغیر اجازت وہاں حاضر نہ ہوسکیں ،جنات جھجکتے ہوئے حاضر ہوں ،جانور سجدے کریں ، بے جان کنکر اور درخت کلمے پڑھیں اور اشارے پرگُھومیں ۔چاند سورج اشاروں پر چلیں ،اس کے اشارۂ ابرو سے بادل آکر برسیں اور دوسرا اشارہ پاکر بادل پھٹ جائیں ، غرضیکہ ہر عرشی فرشی(یعنی زمین وآسمان والے) اس قاہر حکومت کے بندۂ بے زر۔ مسلمانو!معلوم ہے وہ دربار کس کا ہے؟وہ دونوں جہاں کے مختار،حبیبِ کِردگار، کونَین کے شہنشاہ، دارَین کے مالک و مولیٰ،شفیعُ المُذْنِبِین،رحمۃٌ لِّلْعَالَمِین، احمدِ مُجتبٰی، محمد مصطَفٰی صلی اﷲعلیہ وسلمکا دربار ہے۔(رسائلِ نعیمیہ،ص۱۱۳)
حیات ووفات میں کچھ فرق نہیں
صَدرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہحضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃُ اللّٰہِ القویارشاد فرماتے ہیں:یقین جانو کہ حضور اَقدسصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سچی حقیقی دنیاوی جسمانی حیات سے ویسے ہی زندہ ہیں جیسے وفات شریف سے پہلے تھے، اُن کی اور تما م انبیا علیھم الصّلاۃ و السلام کی موت صرف وعدۂ خدا کی تصدیق کو ایک آن کے لیے تھی، اُن کا اِنتقال صِرْف نظرِ عوام سے چُھپ جانا ہے۔ امام محمد ابنِ حاج مکی مَدْخَل اور امام احمد قسطلانی مَوَاہِب لَدنیَہ میں اور ائمہ دین رحمۃ اﷲ تعالٰی علیھم اجمعین فرماتے ہیں:لَا فَرْقَ بَیْنَ مَوْتِہٖ وَحَیَا تِہٖ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ مُشَاھَدَتِہٖ