آپس میں بانٹ لی ۔وَاللہ! ان میں بعض تو خوش نصیب ہیں جو کہ قبروں میں مزے لوٹ رہے ہیں جبکہ بعض ایسے ہیں جو عذابِ قبر میں گرفتار ہیں۔
افسوس صد ہزار افسوس، اے نادان! جو آج مرتے وَقت کبھی اپنے باپ کی ، کبھی اپنے بیٹے کی توکبھی سگے بھائی کی آنکھیں بند کر رہا ہے، ان میں سے کسی کو نہلا رہا ہے ، کسی کو کفن پہنا رہا ہے ، کسی کے جنازے کو کندھے پر اُٹھارہا ہے تو کسی کو قبر کے تنگ وتاریک گڑھے میں دفنا رہا ہے۔ (یاد رکھ! کل یہ سبھی کچھ تیرے ساتھ بھی ہونے والا ہے)کاش !مجھے علم ہوتاکہ کون سا گال( قبر میں ) پہلے سڑے گا‘‘پھر حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رونے لگے اور روتے روتے بے ہوش ہوگئے اور ایک ہفتے کے بعد اِس دنیا سے تشریف لے گئے ۔ (اَلرَّوضُ الْفائِق ص۱۰۷مُلَخَّصاً ) حجَّۃُ الاسلامحضرتِ سیِّدُنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی ’’اِحیاء العلوم ‘‘ میں فرماتے ہیں :بوقتِ وَفات حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی زَبان پر یہ آیتِ کریمہ جاری تھی: تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیۡنَ لَا یُرِیۡدُوۡنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا ؕ وَالْعٰقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیۡنَ ﴿۸۳﴾ (پ۲۰، القصص:۸۳)
ترجَمۂ کنزالایمان: یہ آخِرت کا گھر ہم ان کیلئے کرتے ہیں جو زَمین میں تکبر نہیں چاہتے اور نہ فساد،اور عاقبت پرہیزگاروں ہی کی ہے۔(اِحیاء الْعُلوم ج۵ص۲۳۰)