ہوگا،ہائے !ہائے ! وہ دنیا جسے سنوارنے کے لئے عمربھر بھاگ دوڑکی تھی، جس کی خاطر راتوں کی نیندیں اُڑائی تھیں ، طرح طرح کے خطرے مول لیے تھے، حاسِدین کے رُکاوٹیں کھڑی کرنے کے باوجود بھی جان لڑاکردنیا کا مال کماتے رہے تھے، خوب خوب دولت بڑھاتے رہے تھے،جس مکان کو مضبوط تعمیر کیا تھاپھراُس کو طرح طرح کے فرنیچر سے آراستہ کیا تھا، وہ سبھی کچھ چھوڑ کر رخصت ہونا پڑرہا ہوگا۔ آہ!قیمتی لباس کھونٹی پر ٹنگارہ جائیگا،کارہوئی تو گیرج میں کھڑی رہ جائے گی،کھیل کودکے آلات، عیش وطرب کے اَسباب اور ہر طرح کا مال سامان دَھرا کا دَھرا رہ جائے گا۔اُس وقت مردے کی بے بسی انتہا کو پہنچے گی جب اُس کو روشنیوں سے جگمگاتی عارِضی خوشیوں سے مسکراتی دنیائے ناپائیدار کے فانی گھر سے نکال کر اندھیری قبر میں منتقل کرنے کیلئے اُس کے ناز اٹھانے والے اُس کو کندھوں پر لاد کرسوئے قبرستان چل پڑیں گے ۔
عالم انقلاب ہے دُنیا چند لمحوں کا خواب ہے دُنیا
فخرؔ کیوں دل لگائیں اِس سے نہیں اچّھی، خراب ہے دُنیا
قبر کی دِل ہلا دینے والی کہانی
حضرت سَیِّدُناعمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک جنازے کے سا تھ قبرستان تشریف لے گئے، وہاں ایک قبرکے پاس بیٹھ کر غور وفکر میں ڈوب گئے، کسی نے عرض کی: یا امیرالمومنین! آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یہاں تنہا کیسے تشریف فرما ہیں ؟ فرمایا:ابھی ابھی ایک قبر نے مجھے پکار کربلایا اور بولی: اے عمر بن عبد العزیز(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) مجھ سے کیوں نہیں پوچھتے کہ میں اپنے اندر آنے والوں کے ساتھ کیا برتاؤکرتی ہوں ؟میں نے اُس قبر سے کہا: مجھے ضرور بتا ۔