ضعف پیری کے آپ کو خود لکھ کر سندیں عطاکیں اوردیگرتبرکات وآثار سے بھی نوازا مولانا الشیخ السید علوی عباس المکی مفتی المالکیہ ومدرس الحدیث بالحرم شریف سے بھی ملاقات کا شرف حاصل کیا۔
حج کو جاتے وقت مولانا موصوف نے حضور مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے شیخ مذکور کے نام ایک تعارفی خط لکھوالیا تھا جس سے توجہات عالیہ کو مُنعطِف کرانے میں مدد ملی ۔ شیخ کی بارگاہ میں پہنچ کر جب آپ نے خط پیش کیا اورشیخ اس جملہ پر پہنچے ہذا تلمیذ تلمیذ الشیخ مولانا احمد رضا خاں الہندی ۔تو فرمایا: عبدالمصطفی آپ ہی ہیں ؟آ پ نے عرض کیا :ہاں میں ہی ہوں !پھرتو بڑی ہی گرم جوشی سے معانقہ فرمایا اوردعائیں دیں اورکچھ دیر تک سرکار مرشدی حضور مفتی اعظم ہند دامت برکاتہم القدسیہ کا ذکر کرتے رہے اور سرکاراعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا تذکرہ فرمایا پھر اپنے گھر بلایا۔
جب آپ انکے گھر پہنچے تو وہ آپ کے ساتھ بہت ہی توجہ اورمہربانی سے پیش آئے اور اپنی تمام تصانیف کی ایک ایک جلد عنایت فرما کر صحاح ستہ کی سند حدیث عطافرمائی۔
مولانا الشیخ محمد بن العربی الجزائری کے نام بھی سرکارمفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا خط لے کر حاضر ہوئے تو آپ کی مسرت کی انتہانہ رہی، بڑے تپاک سے ملے اور صحیح بخاری شریف اورموطاکی سند حدیث عطافرمائی اورحضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا تذکرہ جمیل ان الفاظ میں فرمایا:
’’ہندوستان کا جب کوئی عالم ہم سے ملتا ہے تو ہم اس سے مولانا شیخ احمد رضا خاں ہندی کے بارے میں سوال کرتے ہیں اگر اس نے تعریف کی تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ یہ سنی ہے اوراگر اس نے مذمت کی تو ہم کو یقین ہوجاتا ہے کہ یہ شخص گمراہ اور بدعتی