اور اس کو عُرُوج تک پہنچا کر دم لیا۔
بعض ناگفتہ بہ حالات اورارکان میں سے بعض کے درپے آزار ہونے کی وجہ سے استعفا دے کر ۱۷شعبان ۱۳۷۸ھ کو وہاں سے وطن آگئے ۔ اس کے بعد حج بیت اللہ کو روانہ ہوئے ۔ واپسی پر دارالعلوم صمدیہ بھیونڈی (مہاراشٹر) کی طلبی پر مارچ ۱۹۶۰ء کو طلبہ کی ایک جماعت کے ساتھ مدرسہ مذکور میں تشریف لے گئے اورچار برس تک جم کر وہاں تدریسی خدمات کو انجام دیا اور مدرسہ مذکور کی تعمیر میں بھی بھرپورکوشش فرمائیی ، جس کے طفیل ایک شاندار عمارت آج بھی موجود وشاہد ہے ۔
مگر جب وہاں کے بھی بعض حضرات سے تعلقات معمول پر نہ رہے تو خاطر برداشتہ ہوکر ۱۹۶۴ء میں مستعفی ہوگئے۔ اس کے بعد فوراً دارالعلوم مسکینیہ دھوراجی گجرات سے طلبی آگئی اورمولانا حکیم علی محمد صاحب اشرفی کے اوردوسرے لوگوں کے اصرار پر وہاں مع جمعیۃ طلبہ تشریف لے گئے مگر وہاں بھی زیادہ دنوں قیام نہ کرسکے اور بالآخر دار العلوم منظر حق ٹانڈہ فیض آباد (یوپی) میں بَعُہْدَہ صدرالمدرسین وشیخ الحدیث تشریف لے گئے جہاں تقریباًدس سال سے علوم و معارف کے گوہر لٹارہے ہیں ۔ خدا نے تفہیم کی خوب خوب صلاحیت بخشی ہے ۔ تمام مُتَدَاوَل کتابوں پر یکساں قدرت رکھتے ہیں اور پوری مہارت سے درس دیتے ہیں اورطلبہ خوب مانوس ہوتے ہیں ۔ تدریس کی اس طویل مدت میں طلبہ کی ایک تعدادتیار ہوگئی اور آج ملک وبیرون ملک آپ کے تلامذہ تدریس و تقریراور مناظرہ و تصنیف کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
افتاء
تدریس کے ساتھ ساتھ فتوی نویسی کا کا م بھی کرتے رہے ہیں ۔ تحریر کردہ