Brailvi Books

مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب
32 - 676
 جو شخص رات بھر بیمار رہا اور صبر کر کے اللہ تَعَالٰی کی رضا کا طالب ہوا تو وہ شخص گناہوں سے ایسے پاک ہوجائے گا جیسے کہ اپنی پیدائش کے وقت تھا اس لئے جب تم بیمار ہو جاؤ تو عافیت کی تمنا نہ کرو۔(1)
	حضرت ضحاک کہتے ہیں : جو شخص چالیس راتوں میں ایک رات میں بھی گرفتارِ رَنج و اَلم نہ ہوا ہو، اللہ تَعَالٰی کے یہاں اس کے لئے کوئی خیرو بھلائی نہیں ہے۔
مریض بندۂ مومن کے گناہ نہیں لکھے جاتے:
	حضرتِ معاذ بن جبل  رَضِیَ اللہ ُعَنْہ سے مروی ہے: جب بندئہ مومن کسی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اس کے بائیں شانے والے فرشتہ سے کہا جاتا ہے کہ اس کے گناہوں کو لکھنا بند کردو، دائیں شانے والے سے کہا جاتا ہے اس کے نامۂ اَعمال میں وہ بہترین نیکیاں لکھو جو اُس سے سرزد ہوئی ہیں ۔ (2)
	حدیث شریف میں ہے: جب کوئی بندہ بیمار ہوجاتا ہے تو اللہ تَعَالٰی اس کی طرف دو فرشتے بھیجتا ہے کہ جاکر دیکھو میرا بندہ کیا کہتا ہے؟ اگر بیمار ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ‘‘ کہتا ہے تو فرشتے اللہ کی بارگاہ میں جاکر اس کا قول عرض کرتے ہیں ، اِرشادِ الٰہی ہوتا ہے: اگر میں نے اس بندہ کو اس بیماری میں موت دے دی تو اسے جنت میں داخل کروں گا اور اگر صحت عطا کی تو اسے پہلے سے بھی بہتر پرورش کرنے والا گوشت اور خون دوں گا اور اس کے گناہوں کو معاف کردوں گا۔(3)
ایک عبرت اَنگیز حکایت:
	بنی اِسرائیل میں ایک نہایت ہی فاسق و فاجرانسان تھا جو اپنی بد کرداریوں سے کبھی بازنہ آتا تھا، اَہلِ شہر جب اس کی بدکاریوں سے عاجز آگئے تو اللہ تَعَالٰی سے اس کے شَر سے محفوظ رہنے کی دعا مانگنے لگے۔ اللہ تَعَالٰی نے حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَامکی طرف وحی کی کہ بنی اسرائیل کے فلاں شہر میں ایک بدکار جوان رہتا ہے اسے شہر سے نکال دیجئے تاکہ اس کی بدکاریوں کی وجہ سے سارے شہر پر آگ نہ برسے، حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَاموہاں تشریف لے گئے اور اسے اس کی بستی سے نکال دیا،وہ قریب ہی دوسری بستی میں چلا گیا۔پھر فرمانِ الٰہی ہوا کہ اسے اس بستی سے بھی نکال دیجئے، جب 
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1…کنزالعمال، کتاب الاخلاق، الصبر علی مطلق الامراض ، ۲/۱۲۵، الجزء الثالث ، الحدیث  ۶۶۷۶
2…شعب الایمان ، السبعون من شعب الایمان ، باب فی الصب۔۔۔الخ،۷/۱۸۸، الحدیث  ۹۹۴۷
3… شعب الایمان ، السبعون من شعب الایمان ، باب فی الصب۔۔۔الخ، ۷/۱۸۷، الحدیث ۹۹۴۱( بتغیر قلیل)