Brailvi Books

مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب
31 - 676
 مظاہر قدرتِ باری سے پناہ طلب کی تھی، آپ نے اپنے وجود کو مصیبت میں ڈالا اور آپ کے دو ٹکڑے کردیئے گئے۔ 
	حدیث قدسی میں ہے اللہ تَعَالٰی فرماتا ہے جب میرا کوئی بندہ مصائب میں مجھ سے سوال کرتا ہے، میں اسے مانگنے سے پہلے دے دیتا ہوں اور اس کی دُعا کو مقبول کرلیتا ہوں ، اور جو بندہ مصائب کے وقت میری(1)  مخلوق سے مدد مانگتا ہے میں اس پر آسمانوں کے دروازے بند کردیتا ہوں ۔ (2)
حضرتِ زَکریاعَلَیْہِ السَّلَام کو اُف کرنے کی ممانعت:
	کہتے ہیں کہ جب آری حضرتِ زکریا عَلَیْہِ السَّلَام کے دماغ تک پہنچی تو آپ نے آہ کی، اِرشادِ الٰہی ہوا :اے زَکریا مصائب پر پہلے صبر کیوں نہیں کیا جو اَب فریاد کرتے ہو۔ اگر دوبارہ آہ منہ سے نکالی تو دفتر صابرین سے تمہارا نام خارج(3) کردیا جائے گا تب حضرت نے اپنے ہونٹوں کو بند کرلیا، چر کردو ٹکڑے ہوگئے مگر پھر اُف تک نہ کی۔ 
	اسلیٔے ہر عقلمند کیلئے ضروری ہے کہ وہ مصائب پر صبر کرے اور حرفِ شکوہ زبان پر نہ لائے تاکہ دنیا اور آخرت کے عذاب سے نجات حاصل کرلے کیونکہ اس دنیا میں مصائب انبیاء عَلَیـْہِمُ السَّلَام اور اولیاء اللہ ہی پر زیادہ وارد ہوتے ہیں ۔ 
صوفیاء کی نظر میں مصائب کی حقیقت:
	حضرتِ جنید بغدادی رَحْمَۃُ اللہِ  عَلَیْہ کا قول ہے: مصائب عارفین کا چراغ، مریدین کی بیداری، مومن کی اِصلاح اور غافلوں کے لئے ہلاکت ہیں ، مومن مصائب پر صبر کئے بغیر ایمان کی حلاوَت کو پا نہیں سکتا۔ حدیث شریف میں ہے:
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1…دنیادار مخلوق سے یارب کو چھوڑ کر اپنے ماتحت سے اور اسی طرح کسی کو خدا سمجھ کر مدد لیتا ہے۔
2…
3…محب، محبوب میں کوئی خوبی محبوب سے جدا نہیں چاہتا، اسی طرح ماں باپ اپنے محبوب فرزند مریض کو تندرست دیکھنا پسند کرتے ہیں چنانچہ دوا پلاتے وقت یا پرہیز کرانے کے سلسلہ میں تلخ الفاظ سے کام لیتے ہیں، دھمکی بھی دیتے ہیں (مثلاً اگر نہ پئے گا تو ہم بولنا بند کردیں گے وغیرہ) اسی طرح رب نے اپنے ولی (دوست) میں صبر کی خوبی شہادت کے وصف کے ساتھ دیکھنا پسند فرمائی اور صبر کی تلقین میں تنبیہ برائے محبت  فرمائی، دوسرے رب تعالیٰ کا زکریا عَلَیْہِ السَّلَامسے یہ فرمانا کہ نام خارج کردیا جائے گا، مشروط ہے، اس طرح حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے بھی بارہا فرمایا، مثلاً حضور نے رب تعالیٰ کی اولاد کی نفی میں فرمایا کہ رب کا ولد ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرتا۔ 
نکتہ:…کسی قسم کا عیب نبی میں ماننا دراصل رب کے انتخاب میں عیب ماننا ہوگا کہ کامل اوصاف کا نبی نہ چُنا یا معاذاللہ!نبی کا انتخاب کرتے وقت اس کے آئندہ غیر منصب نبوۃ فعل سے بے علم رہا۔ اس واقعہ کا تفصیلی حال ’’اَوراقِ غم‘‘ میں ملاحظہ فرمائیے۔