Brailvi Books

مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب
29 - 676
ہے، تب فرشتوں کو حکمِ الٰہی ہو گا کہ ان کے چہروں سے پردے اٹھالو! فرشتے عرض کریں گے: یہ تیرا دیدار کیسے کریں گے حالانکہ یہ گنہگار تھے۔ اس دم فرمانِ الٰہی ہوگا: تم حجاب اٹھادو! یہ ذِکر کرنے والے، سجدہ کرنے والے اور میرے خوف سے رونے والے تھے اور میرے دیدار کے امیدوار تھے۔ اس وقت پردے اٹھادئیے جائیں گے اور جنتی اللہ کا دیدار ہوتے ہی سجدہ میں گرجائیں گے، فرمانِ الٰہی ہوگا: سراٹھالو یہ جنت دار عمل نہیں دارِ جزاء ہے اور وہ اپنے رب کو بے کیف دیکھیں گے، رب فرمائے گا:  ’’ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ یَا عِبَادِیْ فَقَدْ رَضِیْتُ عَنْکُمْ فَھَلْ رَضِیْتُمْ عَنِّیْ ‘‘
 میرے بندو! تم پر سلامتی ہو، میں تم سے راضی ہوں ، کیا تم مجھ سے راضی ہو؟
	جنتی عرض کریں گے: اے ہمارے رب! ہم کیسے راضی نہیں ہوں گے حالانکہ تونے ہمیں وہ نعمتیں دیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سُنا اور نہ ہی کسی دل میں ان کا تصور گزرا اور یہی اس فرمانِ الٰہی کا مقصود ہے کہ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے اور ’’ سَلٰمٌ ۟ قَوْلًا مِّنۡ رَّبٍّ رَّحِیۡمٍ ﴿۵۸﴾‘‘۔(1)
……٭…٭…٭……
جنت میں گھومنے والا
      حضرت سیِّدُنا امام مُسلِم بن حجاج قُشَیری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی صحیح مسلم میں نقل کرتے ہیں،تاجدار ِمَدینہ، قرارِ قلب و سینہ، فیض گنجینہ، صاحب مُعطَّر پسینہ ،باعث نزولِ سکینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے: ’’ میں نے ایک شخص کو جنت میں گھومتے ہوئے دیکھا کہ جدھر چاہتا ہے نکل جاتا ہے کیوں کہ اُس نے اِس دنیا میں ایک ایسے دَرَخت کو راستے سے کاٹ دیا تھا جو کہ لوگوں کو تکلیف دیتا تھا۔‘‘ (صَحِیح مُسلِم ، ص۱۴۱۰، الحدیث۲۶۱۷)
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1…ترجمۂکنزالایمان:ان پر سلام ہوگا مہربان رب کا فرمایا ہوا۔(پ۲۳، یسٓ:۵۸)