کلیم اللہ عَلَـیْہِ السَّلَام کی بارگاہ میں عرض کررہے ہیں کہ جب آپ کاہم کلام باری تعالیٰ تھاتوآپ نے وفورِمحبت اورغلبۂ شوق میں اپنے کلام کوطول دیاتاکہ زیادہ سے زیادہ ہم کلامی کاشرف حاصل ہوسکے اوراس وقت مجھے آپ سے ہم کلام ہونے کا موقع ملاہے اورکلیمِ خدا سے گفتگوکاشرف حاصل ہواہے اس لئے میں نے بھی شوق ومحبت میں کلام کوطویل کیا ہے۔(1)
قابل فخرہستی :
حضرت سیِّدُنا امام ابوالحسن شاذلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِیفرماتے ہیں : میں خواب میں زیارتِ رسول سے مشرف ہوا تو دیکھا کہ حضوررحمت ِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت سیِّدُناموسیٰ اور حضرت سیِّدُناعیسیٰ عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سامنے حضرت سیِّدُنا امام غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی پر فخرکرتے ہوئے فرمارہے ہیں : ’’ کیا تمہاری اُمتوں میں غزالی جیسا عالم ہے۔‘‘دونوں نے عرض کی: ’’ نہیں ۔ ‘‘(2)
سفرآخرت :
عمر کے آخری حصہ میں اگرچہ حضرت سیِّدُنا امام غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِیکازیادہ تروقت عبادت میں گزرتا اور شب وروز مجاہدات وریاضا ت میں بسر کرتے تھے مگرتصنیف وتالیف کا مشغلہ بالکل ترک نہ فرمایا۔ اصول فقہ میں آپ کی اعلی درجہ کی تصنیف’’ اَلْمُسْتَصْفٰی‘‘ ۵۰۴ھ کی تصنیف ہے۔اس کے ایک برس بعدآپ نے 55سال کی عمر میں بروز پیر۱۴جمادی الآخر ۵۰۵ھ میں طابران (طوس)میں انتقال فرمایا اور وہیں مدفون ہوئے ۔ وراثت میں اس قدر مال چھوڑا جو آپ کے اہل وعیال کے لئے کافی تھا حالانکہ آپ کوبہت زیادہ مال وزر پیش کیا گیا مگر آپ نے قبول نہ کیااورکبھی کسی کے آگے دست سوال دراز نہ کیا۔اولاد میں صرف بیٹیاں ہی سوگوار چھوڑیں ۔
حضرت سیِّدُناامام ابن جوزِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی(متوفی۵۹۷ھ) نے’’ اَلثُّبَاتُ عِنْدَ الْمَمَات‘‘میں آپ کے
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1…کوثرالخیرات، ص۴۰
2…النبراس شرح شرح العقائد ، ص۲۴۷ و اتحاف السادۃ المتّقین ، مقدمۃ الکتاب ، ج۱، ص۱۲ و تعریف الاحیاء بفضائل الاحیاء علی ہامش احیاء علوم الدین ، ج۵، ص۳۶۴