Brailvi Books

مُکاشَفَۃُ الْقُلُوب
13 - 676
  ایک دیہاتی آیا اور ان مفتیان کرام کی بارگاہ میں ایکمسئلہ عرض کیاجس کے جواب میں سب نے خاموشی اختیار فرمائی، امام غزالی بھی اس مسئلے میں غور فرمانے لگے،جب کسی نے بھی جواب نہ دیا تو دیہاتی پر یہ بات بہت گراں گزری،یہ دیکھ کر آپ نے اسے اپنے  پاس بلایا اور اس کے مسئلے کا جواب ارشاد فرمادیالیکن وہ بجائے شکریہ ادا کرنے کے، آپ کا مَذاق اُڑانے لگا اور بولا: جلیل القدر مفتیان کرام نے جس مسئلے کا جواب نہ دیا ایک عام فقیر اس مسئلے کا جواب کیسے دے سکتا ہے ! جب وہ لوٹا تو ان مفتیان کرام نے اس سے پوچھا کہ کیا جواب بتایا اس نے عرض کردیا ،یہ سب امام صاحب کے پاس آگئے اورجب تعارف ہوا تو آپ سے درخواست کی کہ آپ ہمارے لئے ایک علمی نشست منعقد فرمائیں ! آپ نے اگلے دن کا فرمادیامگراسی رات وہاں سے سفر پر روانہ ہوگئے ۔(1)
  خودپسندی کاخوف:
	ایک باراتفاقاًحضرت سیِّدُنا امام غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِیدمشق کے مدرسہ ’’ اَمِینِیَّہ‘‘   تشریف لے گئے، وہاں دیکھا کہ  ایک استاذ کہہ رہے تھے : قَالَ الْغَزَا لِی(امام غزالی فرماتے ہیں ) یعنی وہ آپ کے کلام کے ساتھ تدریس کررہے تھے ۔ یہ دیکھ کر آپ پرخودپسندی میں گرفتارہونے کا خوف طاری ہوا لہٰذا آپ نے دمشق چھوڑدیا۔(2)
دنیاسے بے رغبتی :
              ’’ شَذَرَاتُ الذَّہَب‘‘ میں ’’ زَادُ السَّالِکِیْن‘‘ کے حوالے سے مذکورہے :   حضرت سیِّدُنا قاضی ابو بکر بن عربی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَلِیبیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا امام غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِیکو لوگوں کے درمیان اس حال میں پایا کہ آپ کے ہاتھ میں لاٹھی تھی، پیونددار لباس زیب تن تھا اور کندھے سے پانی کا برتن لٹک رہا تھا اور  میں دیکھا کرتا کہ بغداد میں آپ کے بحر علم سے مستفیض ہونے کے لیے بڑے بڑے جید علما و فضلاء آپ کی مجلس درس میں حاضر ہوتے جن کی تعداد چار سو تک پہنچ جاتی۔ (3)
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1…طبقات الشافعیۃ الکبری، ج۶، ص۱۹۹	    
 2…طبقات الشافعیۃ الکبری، ج۶، ص۱۹۹
3…شذ رات الذھب، ج۴، ص۱۴۶