مرآۃ المناجیح شرح مشکٰوۃ المصابیح جلد ہشتم |
باب فضائل سیّد المرسلین صلوٰت اللہ و سلامہٗ علیہ رسولوں کے سردار کے فضائل کا بیان،ان پر اللہ کی رحمتیں اور سلام ۱؎
الفصل الاول پہلی فصل
۱؎ فضائل جمع ہے فضیلت کی،فضیلت وہ خصوصی بزرگی ہے جو حضور انور کو عطا ہوئی آپ کے سوا کسی نبی ولی جن فرشتے کو عطا نہ ہوئی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم بعد خدا تعالٰی ساری مخلوق سے افضل ہیں،آپ کا مثل رب تعالٰی نے پیدا ہی نہ فرمایا ؎ دھر میں سب سے تو بڑا تجھ سے بڑی خدا کی ذات قائم ہے تیری ذات سے سارا نظام کائنات حضور کے خصوصی فضائل حد سے وراء شمار سے زیادہ ہیں۔ان کا شمار ساری مخلوق نہیں کرسکتی جو کوئی کچھ بیان کرتا ہے وہ صرف برکت کے لیے،سمندر کا قطرہ ریگستان کا ذرہ ہی بیان کرتا ہے وہ ایسے ہیں جیسا انہیں رب تعالٰی ہی جانتا ہے ؎ لایمکن الثناء کما کان حقہٗ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر اسی طرح صاحب مشکوۃ نے صرف ایمان تازہ کرنے اپنا نام حضور کے نعت خوانوں میں لکھوانے کے لیے یہ باب باندھا اور یہ فقیر گنہگار احمد یار اپنے نصیب پر ناز کرتا ہے کہ مجھے رب تعالٰی نے اس باب کی شرح لکھنے کی توفیق بخشی مجھے تو ان کا گنہگار امتی ہونے پرفخر ہے ؎ بریں نازم کہ ہستم امت تو گنہگارم ولیکن خوش نصیبم خیال رہے کہ حضور انور ساری خلقت سے افضل ہیں لہذا آپ نبیوں سے،رسولوں سے،عرش اعظم سے،کعبہ معظمہ سے،کتاب اللہ لفظی قرآن مجید سب سے افضل ہیں کہ یہ سب چیزیں اللہ کی مخلوق ہیں۔چنانچہ کعبہ دیکھنے والا حاجی ہے،کوئی نمازی،کوئی غازی،کوئی قاری یا قاضی ہے مگر حضور کو ایمان کے ساتھ دیکھنے والا صحابی ہے جو تمام سے افضل ہے۔اسی لیے جب حضور انور نے مکہ معظمہ کو چھوڑا وہاں سے ہجرت کی تو مسلمانوں کو بلاعذر وہاں رہنا حرام ہوگیا حالانکہ کعبہ شریف وغیرہ وہاں موجود تھے، جب فتح مکہ فرمائی تب تاقیامت وہاں رہنا جائز بلکہ ثواب ہوگیا،جب حضور مکی تھے تو آیات قرآنیہ مکی ہوئیں،جب حضور مدنی ہوگئے تو آیاتِ قرآنیہ مدنی ہوگئیں۔رب نے مکہ کی قسم فرمائی اس لیے نہیں کہ وہاں کعبہ ہے بلکہ اس لیے کہ وہاں حضور ہیں" لَاۤ اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ وَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الْبَلَدِ"حضور کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا درجہ ہے پھر موسیٰ علیہ السلام کا،اس کے بعد خاموشی بہتر ہے، دیکھو اشعۃ اللمعات۔
حدیث نمبر 1
روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میں اولاد آدم میں بہترین گروہ میں بھیجا گیا یکے بعد دیگرے گروہ ۱؎ حتی کہ میں اس گروہ سے ظاہر ہوا جس میں سے میں پہلے سے تھا ۲؎ (بخاری)
شرح
۱؎ یعنی آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عبداللہ تک میرا نور جس قبیلہ وخاندان میں رہا وہ ہمیشہ دنیا بھر میں تمام خاندانوں سے بہتر تھا،اس میں اچھی خصلتیں شرافت نجابت تھی اور جن کے پیٹھوں یا پیٹوں میں یہ نور رہا وہ زنا اور کفرو شرک سے محفوظ رہے،از آدم علیہ السلام تا حضرت عبداللہ حضور انور کا کوئی دادا دادی کافر نہ ہوئے سب موحّد مؤمن رہے حتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والدین مؤمن تھے،خود جناب خلیل نے فرمایا"رَبَّنَا اغْفِرْ لِی وَلِوٰلِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیۡنَ یَوْمَ یَقُوۡمُ الْحِسَابُ"یہاں ولوالدی سے آپ کے باپ تارخ اور والدہ تسلی بنت نمر مراد ہیں اور"وَاغْفِرْ لِاَبِیۡۤ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیۡنَ"میں اب سے مراد چچا آزر ہے۔والداور اب کا فرق خیال میں رہے۔ ۲؎ قرن کے لفظی معنی ہیں ملنا،اصطلاح میں جماعت کو قرن کہتے ہیں،پھر زمانہ،ہم زمانہ لوگ،گروہ سب کو قرن کہتے ہیں،یہاں مراد ہے جماعت یا گروہ اور جماعت سے مراد ہیں حضور کے باپ داداؤں ماں اور ناناؤں کی جماعت یا اس سے مراد ہے صحابہ کرام اہل بیت اطہار کی جماعت یا مراد ہے تا قیامت حضور کی امت یا حضور کا سارا قبیلہ و خاندان،اگر آخری معنی مراد ہیں تو خیر سے مراد ہے اعلیٰ و اشرف قوم جس کی دنیا میں بڑی عزت کی جاتی ہو۔حضور کے خاندان میں اگرچہ بعض لوگ کافر تھے جیسے ابو لہب وغیرہ مگر تھے اونچے خاندان والے قریشی ہاشمی کہ ان کی دنیا میں بڑی عزت تھی اور دوسرے احتمالات کی بنا پر خیر کے معنی ہیں مؤمن متقی پرہیزگار کہ حضور انور کے والدین دادا نانا سب کے سب مؤمن موحد پرہیزگار تھے،کفر زنا،بری حرکتوں سے محفوظ تھے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی"وَمِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ"اور پھر فرمایا"رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیۡہِمْ رَسُوۡلًا مِّنْہُمْ"خدایا میری اولاد میں ایک جماعت مؤمن رہے میرے مولٰی اس مؤمن جماعت میں آخری رسول بھیج۔کیسے ہوسکتا ہے کہ حضور تو نور ہوں حضور کی نسل پاک آباء و اجداد نار والے ہوں،اللہ تعالٰی نے حضور کا نور نورانی لوگوں میں رکھا۔(اشعۃ اللمعات)