میں(یعنی پیچھے پیچھے) روانہ ہوئے،کچھ دور جاکر ہم نے ایک لرزہ خیز منظر دیکھا ، ایک نوجوان نشے کی حالت میں بے ہوش پڑا تھا، اچانک ایک خوفناک سانپ کہیں سے آ نکلا اوراس نوجوان کے سینے پر چڑھ گیا اوراُس نے جوں ہی اُسے ڈسنا چاہا، بچھو نے اُس پر حملہ کر دیا اور ایسا زہر یلا ڈنک ماراکہ خوفناک سانپ زہر کے اثر سے تَلْمَلاتا ہوا(یعنی بے چین ہو کر) نوجوان کے جسم سے دُور ہٹ گیااور تڑپ تڑپ کر مرگیا ، بچھوتالاب کے کَنارے آ کر اُسی مینڈ ک پر سُوار ہو کر دوسرے کَنارے کی طر ف روانہ ہو گیا۔ وہ نوجوان ابھی تک نشے میں بے ہوش پڑا تھا۔ حضرتِ سیِّدُناذُوالنُّون مصریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِینے اس کو ہلایا جلایاتو اس نے آنکھیں کھول دیں ، آپ نے فرمایا: اے نوجوان! دیکھ خدائے رحمن عَزَّ وَجَلَّ نے کس طر ح تیری جان بچائی ہے! اور مینڈک سُوار بچھو اور خوفناک سانپ کی انوکھی داستان سنائی اور مرا ہوا سانپ دکھایا۔
نوجوان خوابِ غفلت سے جاگ اُٹھا، توبہ کی اور اپنے پیارے پیارے پروردگار عَزَّ وَجَلَّ کے دربارِ کرم بار میں عرض گزار ہوا:’’ اے خدائے رحمن عَزَّ وَجَلَّ!جب اپنے بندگانِ نافرمان کے ساتھ تیرے فضل و احسان کی یہ شان ہے، تواپنے تابِعِ فرمان بندوں پر بارانِ رحمت کا کیا عالم ہو گا!‘‘راوی فرماتے ہیں: اس کے بعد وہ نوجوان ایک جانب چلدیا،تو میں نے پوچھا:’’ کہا ں کا ارادہ ہے ؟‘‘ کہنے لگا اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ اب میں(دنیاکی رنگینیوں سے دوررہتے ہوئے) جنگلوں میں اپنے ربِّ رحمت عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت کیا کرو ں گا۔(عُیُونُ الْحِکایات ص ۱۰۲مُلَخَّصاً )