’’اَلرَّجُلُ عَلٰی دِینٍ خَلِیْلِہٖ، فَلْیَنْظُرْ أَحَدُکُمْ مَنْ یُخَالِلُ‘‘ ترجمہ: آدمی اپنے دوست کے دین پر ہے، پس تم میں سے ہر شخص دیکھ لے کہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب من یؤمر ان یجالس، ۴/۳۴۱، حدیث:۴۸۳۳)
صَلُّوْاعَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
{2}کرکٹ کاشائق مُدَرِّس کیسے بنا؟
میانوالی(پنجاب، پاکستان) کے محلہ نور پورہ سے تعلق رکھنے والے ابوالحسنین محمد عارف محمود عطاری(عمر تقریباً ۳۰ سال) کے تحریری بیان کا مفہوم ہے کہ مدنی ماحول سے وابستہ ہونے سے قبل مجھے کرکٹ کھیلنے کا جنون کی حدتک شوق تھا، وقت برباد کرنے والے اس فعل سے نجات پانے کی صورت یوں بنی کہ ہمارے محلے کی جامع مسجد نوری میں ایک اسلامی بھائی جو باب الاسلام سندھ سے تعلق رکھتے تھے اور پاکستان ائیر فورس میں ملازمت کی وجہ سے پنجاب میں مقیم تھے روزانہ مغرب کی نماز کے بعد فیضانِ سنّت کا درس دیتے تھے۔ بڑے بھائی جان (جو تادمِ تحریر ائیر فورس، کامرہ بیس، اٹک، پنجاب میں سرکاری ملازم ہیں ) بھی اس درس میں شریک ہوتے تھے۔ بھائی جان پر درسِ فیضانِ سنّت کی برکتوں کا ایسا ظہور ہوا کہ ان کے دِل میں نیکی کا جذبہ پیدا ہوگیا لہٰذا انہوں نے مذکورہ اسلامی بھائی سے درس دینے کا طریقہ سیکھا اور پھر خود ہی درس دینا شروع کردیا۔ ہم بھی