گیا۔ ’’صحبت اثر رکھتی ہے‘‘ کے مصداق مجھ میں طرح طرح کی برائیاں جنم لینے لگیں، ہر ایک سے لڑنا جھگڑنا اور اس دوران اسلحہ کا بے دریغ استعمال کرنا میری پہچانِ بد بن چکا تھا۔ لوگ اپنی جان کی حفاظت کے لئے مجھ سے دور بھاگتے اور اپنے بچوں کو مجھ سے دور رہنے کی نصیحت کرتے ۔ نماز پڑھنا تو دور کی بات مجھے نماز پڑھنے کا طریقہ بھی نہ آتا تھا۔ میرے بُرے کرتوتوں نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا، ہر شحص مجھ سے نفرت کرنے لگا اور گھر والے بھی مجھ سے تنگ آچکے تھے۔ رب عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے میری اصلاح کا سامان کچھ اس طرح ہوا کہ ایک روز میں اپنے آوارہ اور بدکردار دوستوں کے ساتھ گلی میں بیٹھا ہوا تھا کہ اسی دوران سبز عمامہ سجائے، نگاہیں جھکائے ایک باریش اسلامی بھائی کا وہاں سے گزر ہوا (جو مدنی ماحول سے وابستہ ہمارے حلقہ مشاورت کے نگران تھے) ہمیں خوش گپیوں میں مشغول دیکھ کر وہ ہمارے پاس تشریف لے آئے اور سلام و مصافحہ کرنے کے بعد ہمیں نیکی کی دعوت دینے لگے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ باعمل شخص کی بات دِل پر جلد اثر کرتی ہے لہٰذا میرے دِل پر ان کی باتوں کا بڑ اثر ہوا۔ پھر اس کے بعد جب کبھی میری ان سے ملاقات ہوتی وہ انفرادی کوشش کے ذریعے مجھے نماز پڑھنے کا ذہن دیتے اور بُری عادتوں کو ترک کرنے اور بُرے دوستوں سے بچنے کی تلقین کرتے۔ بالآخر ان کی مستقل انفرادی کوشش رنگ لے آئی، میں نے پانچ وقت