جب میری جان چھوٹی۔ میں ساری رات تکلیف کے مارے آہیں بھرتا رہا مگر میرے کرتوتوں کے باعث کسی نے میرا حال تک نہ پوچھا۔ والد صاحب سے اتنی مار کھانے کے باوجود بھی میں نے اپنی رَوِش تبدیل نہ کی بلکہ اپنے کام اسی طرح کرتا رہا۔ اتفاق سے ایک دن دادا جان کے ساتھ مسجد جانا ہوا، مسجد کی بابرکت فضا میں سکون کا احساس ہوا، بارگاہِ الٰہی میں سر بسجود ہونے کی سعادت ملی ،کرم بالائے کرم یہ کہ دعوتِ اسلامی کے مشکبار مدنی ماحول سے وابستہ عاشقانِ رسول سے ملاقات ہو گئی جن کے چہروں پر عبادت کا نور نمایاں تھا ان کے سروں پر سبز سبز عمامے شریف کے تاج ،اور بدن پر سنّت کے مطابق سفید لباس ان کی شخصیت کو چار چاند لگا رہا تھا۔ مجھے ان کا یہ مدنی حُلیہ بہت اچھا لگا۔ نماز سے پہلے انہوں نے اپنے آپ کو خوشبوؤں سے معطر و معنبر کیا جس سے ارد گرد کی فضا میں بھینی بھینی خوشبو پھیل گئی۔ نماز کے بعدایک اسلامی بھائی نے درد بھرے انداز میں فکرِ آخرت پر مبنی بیان کیا۔ میں بھی قریب جا کر بیٹھ گیا اور بغور بیان سننے لگا مگر شاید قَساوَتِ قلبی کے باعث مجھ پر کوئی خاص اثر نہ ہوا اور میں حسبِ معمول اپنی موج مستیوں میں مگن ہو گیا۔ اسی دوران ماموں جان کے گھر پر منعقد ہونے والے اجتماعِ ذکر و نعت میں شرکت کی سعادت مل گئی۔یہاں دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ وہی عاشقانِ رسول تشریف لائے تھے جن سے مسجد میں میری