ہوتا اور یوں اپنی اور دیگر مسلمانوں کی اصلاح کا سامان ہوتا۔ رات کے آخری پہر شرکائے مدَنی قافلہ تہجد کے لئے بیدار ہوتے، مجھے بھی تہجد کی سعادت نصیب ہوتی۔ تہجد کے بعد میں بارگاہِ الٰہی میں اپنا خالی دامن پھیلاتا، گڑگڑاتا اشک بہاتا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ سے شفا یابی دُعا مانگتا۔ مدنی قافلے کے دوران میرا یہی معمول رہا۔ اَ لْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ 12 دن تہجد، اشراق و چاشت اور اوّابین کے نوافل پڑھنے کی بھی سعادت مُیَسَّر آئی۔
پھر جب مدَنی قافلے سے واپسی ہوئی تو مجھے چیک اپ کے لئے اسپتال جانا ہوا (جہاں میرے علاج کا سلسلہ چل رہا تھا) ڈاکٹر نے مرض کی نوعیت دیکھنے کے لئے میرا چیک اپ کیا۔ ٹیسٹ کے بعد جب رپورٹیں آئیں تو ڈاکٹر حیران و ششدر رہ گئے انہوں نے بتایا کہ حیرت انگیز طور پر کینسر اور دماغی دانوں کا مرض بالکل ختم ہوچکا ہے۔ یہ سُن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ مدَنی قافلوں میں مانگی جانے والی دعائیں رنگ لائیں اور مجھے شفا نصیب ہو گئی۔ میرا یوں حیرت انگیز طور پر آناً فاناً ٹھیک ہو جانا ہر ایک کے لئے اچنبھے کی بات تھی۔ ڈاکٹر نے پوچھا آپ نے کہیں سے علاج کروایا ہے میں نے جب ڈاکٹر کو اپنے مرض کے ٹھیک ہونے کی اصل وجہ بتائی تو وہ بھی مدَنی قافلے کی بدولت مریضوں کو ملنے والی شفا کے بارے میں