آرزو ہے ۔ اگر کوئی آرزو ہے تو فَقط یہی کہ اسلام کا بول بالا ہو، اسلام کی روشنی پھیلے اور لوگ خدائے وحدہٗ لاشریک کی بارگاہ میں جھک جائیں ۔سیِّدُ الثَّقَلَین، رحمتِ دارَین،شَہَنْشاہِ کونین صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عادتِ شریفہ تھی کہ ہر سال موسمِ حج میں تمام قبائلِ عرب کو جو مکّۂ معظّمہ زَادَہَا اللہ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً اور نواحِ مکَّہ زَادَہَا اللہ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً میں موجود ہوتے دعوتِ اسلام دیا کرتے تھے ۔اِسی غَرَض سے ان کے میلوں میں بھی تشریف لے جایا کرتے۔
سرکا ر ِدوعالم صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں کے ڈیروں پر جاکر تبلیغ فرماتے مگر کوئی آپ صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تعاون کرنے میں آگے نہ بڑھتا ، عرب کے ان سب قبائل کو آپ صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے دعوتِ اسلام دی مگر کوئی ایمان نہ لایا ، ابو لہب لعین ہر جگہ ساتھ جاتا ، جب آپ صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کہیں بیان فرماتے تو وہ برابر سے کہتا: اس کا کہنا نہ مانو،یہ بڑا دروغ گو (یعنی جھوٹا)،دین سے پِھرا ہو ا ہے۔ (والعیاذ باللہ)۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو اپنے دین اوراپنے رسُول کا اعزاز منظور تھا، اس لیے نبوت کے گیارھویں سال ماہِ رجبُ المرَجَّب میں جب آپ صَلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حسبِ عادت مِنیٰ شریف میں عُقْبَہ کے نزدیک قبیلہ خَزْرَج