ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عمل صحیح نہ ہو مگر جب اِخلاص کے ساتھ کیا گیا ہو تو اس پر ثواب مُرتَّب ہو مثلاً لاعلمی میں کسی نے نَجَس پانی سے وُضو کیا اور نماز پڑھ لی اگرچہ یہ نماز صحیح نہ ہوئی کہ صحت کی شرط طہارت تھی وہ نہیں پائی گئی مگر اس نے صدقِ نیت اور اِخلاص کے ساتھ پڑھی ہے تو ثواب کا تَرتُّب ہے یعنی اس نماز پر ثواب پائے گا مگر جبکہ بعد میں معلوم ہو گیا کہ ناپاک پانی سے وُضو کیا تھا تو وہ مُطالَبہ(شریعت کا حکم) جو اس کے ذِمّہ ہے ساقِط نہ ہو گا، وہ بدستور قائم رہے گا اس کو ادا کرنا ہو گا اور کبھی شرائطِ صحت پائے جائیں گے مگر ثواب نہ ملے گا مثلاً نماز پڑھی، تمام اَرکان ادا کیے اور شرائط بھی پائے گئے مگر رِیا کے ساتھ پڑھی تو اگرچہ اس نماز کی صحت کا حکم دیا جائے مگر چونکہ اِخلاص نہیں ہے ثواب نہیں۔ (1)
یاد رکھیے!اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کی نیت نیک و جائز اور مُباح کاموں میں ہی ہو سکتی ہے گناہ والا کام اچھی نیت اور خُلوص سے نیکی نہیں بن جاتا بلکہ اس کی ہلاکت خیزیوں میں مزید اِضافہ ہو جاتا ہے اور یہ بھی یاد رکھیے کہ جس طرح نیک عمل سے پہلے دل میں اِخلاص ہونا اور اس کا رضائےالٰہی کےلیے ہونا ضَروری ہے اِسی طرح ہر نیکی وعبادت کے دَوران
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
…… بہارِ شریعت،۳/۶۳۶-۶۳۷،حصّہ:١٦