تھا، ابّا جان نے کوئی کام کہا تو حسب ِ معمول انہیں ٹَکَّا سا جواب دے دیاتھا، پھر اپنےدفترجانے کے لیے جو لباس میں نے پہن رکھا تھا وہ بھی تو خلاف ِ سُنَّت تھا،جب گھر سے روانہ ہوا تو چلتے چلتے اپنے پڑوسیوں کی رنگ شُدہ صاف ستھری دِیوار پر پان کی پِیک پھینک کر اسے داغدار کر ڈالاتھا، بس میں کنڈیکٹر وغیرہ سے خواہ مخواہ اُلجھ کر دو چار گالیاں بھی تو بکی تھیں اور بس میں بیٹھی بے پردہ خواتین کومسلسل گھورابھی توتھا ، پھر دورانِ ملازمت اپنی ڈیوٹی پوری کرنے کے بجائے اِدھر اُدھر کی باتوں میں وقت ضائع کر دیا جبکہ مشاہرہ پورا ہی لوں گا،اپنے ساتھیوں کی چیزیں انہیں ناگوار گزرنے کے باوُجُود ان کی اِجازت کے بغیر اِسْتِعمال کر ڈالیں،ظہر کی نماز کا طویل وقت اپنے دوستوں سے’’گپ شپ‘‘کرتے ہوئےگزار دیا،اسی طرح عصر و مغرب کی نمازیں بھی میں نے دیگرمصروفیات کی نذر کر دیں،واپسی پر رَش کی بنا پر دوسروں کو دَھکے دیتے ہوئے گھر واپسی کے لیے بس میں سُوار ہو گیا اور بس اسٹاپ سے گھر آتے ہوئے کوئی غریب مجھ سے اَنجانے میں ٹکرا گیا تھا تو میں نے اس کا قصور نہ ہونے کے باوُجُود اِسے گریبان سے پکڑ کر پِیٹ ڈالا تھا، گھر پَہُنچ کر ’’شدید تھکاوٹ‘‘کی وجہ سے عشا کی نماز بھی نہ پڑھی اور رات کاکھانا کھانے کے بعد’’فریش(Fresh)‘‘ہونے کے لیے آوارہ دوستوں کی محفل میں جا بیٹھا،فحش کلامی،گالی گلوچ،تاش کا کھیل اس محفل کی