البتہ بعض بزرگانِ دینرَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِین نے اپنا محاسبہ کرنے اور دل کو نرم رکھنے کے لیے قبر کھدوا کر رکھی ہے اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ حضرتِ سیِّدُنا ربیع بن خُثَیْمرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے گھر میں ایک قبر کھود ر کھی تھی۔جب کبھی اپنے دل میں سختی پاتے تو اس میں لیٹ جاتے اور جب تکاللہ عَزَّ وَجَلَّچاہتااس میں رہتے پھر یہ آیتِ مُبارَکہ تلاوت فرماتے: )رَبِّ ارْجِعُوۡنِ ﴿ۙ۹۹﴾ لَعَلِّیۡۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیۡمَا تَرَکْتُ( (پ۱۸،المؤمنون:۹۹،۱۰۰)
ترجمۂ کنز الایمان:”اے میرے رب مجھے واپس پھیر دیجئے شاید اب میں کچھ بھلائی کماؤں اس میں جو چھوڑ آیا ہوں۔“اسے دُہراتے رہتے پھر خود کو مخاطب کر کے کہتے:اے ربیع!تیرے ربّ نے تجھے واپس بھیج دیا ہے اب عمل کر۔ (1)اسی طرح حضرتِ سَیِّدُنا عمر بن عبدالعزیزعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْعَزِ یْز کے بارے میں بھی مذکور ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ ایسا کرنے والے کو اجر دیا جائے گا۔ (2)
فکرِمدینہ کامطلب اور اس کی اہمیت
عرض:فکرِ مدینہ کسے کہتے ہیں اور یہ کیوں ضروری ہے ؟
اِرشاد:دعوتِ اسلامی کی اِصطلاح میں اپنا محاسبہ کرنے کو” فکرِ مدینہ“کہا جاتا ہے، اس کا آسان سا مطلب یہ ہے کہ اِنسان اُخروی اِعتبار سے اپنے معمولاتِ
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
…… احیاء العلوم،کتاب ذکر الموت ومابعدہ،بیان حال القبر...الخ،۵/۲۳۸
…… فتاویٰ تاتارخانیة،کتاب الصلاة،الفصل فی القبر والدفن،۲/۱۷۲ ملخصاً