مسلمانوں پر ظلم ڈھاتا رہا،والدین کو ستانے سے منع کیا گیا لیکن آہ! میں نے والدین کی نافرمانی کر کے ان کو ستانا اپنی عادت بنا لیاتھا،جھوٹ،غیبت چغلی،فحش کلامی اور گالی گلوچ سے اپنی زبان پاک رکھنے کا کہا گیا لیکن آہ! میں اپنی زبان کو قابو میں نہ رکھ سکا ، مجھے غیبت ،فحش کلامی وغیرہ سُننے سے روکا گیا لیکن میں اپنی سماعت پاکیزہ نہ رکھ سکا،دِل کو بُغض،حسد،تکبّر، بَدگمانی، شَماتت(کسی کے نقصان پر خوش ہونا)، ناجائز لالچ وغُصّہ وغیرہ سے خالی رکھنے کا اِرشاد ہوا لیکن آہ! میں اپنے دِل کو اِن غلاظتوں سے نہ بچا سکا ۔
آہ صد آہ !یہ دونوں حکم توڑنے کے بعدمیں کس مُنہ سے اس قہّار و جبّار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنے اَعمال ِ زندگی کا حساب دوں گا؟ اور پھر ایسی خطر ناک صورتِ حال کہ خود میرے اَعضائے جسمانی مثلاً ہاتھ ، پاؤں، آنکھ ، کان ، زبان وغیرہ میرے خلاف گواہی دینے کے لیے بالکل تیار ہیں۔ دوسری طرف اپنی مختصر سی زندگی میں نیک اَعمال اِختیار کرنے والوں کو ملنے والے اِنعامات دیکھ کر اپنے کرتوتوں پر شدید اَفسوس ہو رہا ہے کہ وہ اِطاعت گزار بندے تو سیدھے ہاتھ میں نامۂ اعمال لے کر شاداں و فرحاں جنّت کی طرف بڑھے چلے جا رہے ہیں لیکن نامعلوم میرا اَنجام کیا ہو گا؟کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے اُلٹے ہاتھ میں نامۂ اعمال تھماکر جہنم میں جانے کا حکم سُنا دیا جائے اور سارے عزیز واَقارب کی نظروں کے سامنے مجھے مُنہ کے بل گھسیٹ کر